شیخ ابراہیم ذوق کا چراغ غالب کے مقابلے میں تو لو نہ دے سکا لیکن ایک شعر وہ ایسا بھی کہہ گئے ہیں جس پیار آتا ہے
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا ۔۔۔ مسجد و تالاب بنا
یہ شعر یاد نہ آتا اگر خواجہ محمد رفیق شہید کے لائق فرزند برادر محترم خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق فیض کے کچھ اسباب پیدا نہ کرتے۔ خواجہ محمد رفیق کون تھے؟ یہ سوال آج میں نے چند صحافیوں سے دریافت کیا، ان میں ایک تو ایک تو ایک بڑے چینل میں پروگرام بھی کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر قابل رشک پس رو (یعنی فالورز)بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے عہد کی نئی نسل جو خود کو جین زی (Gen.Z) کے صفاتی لقب سے شناخت کرتی ہے، اس قسم کے سوالات پر آنکھیں مٹکاتے ہوئے کاندھے اچکا کر کہا کرتی ہے: ' عجیب۔'
اس عجیب تجربے سے گذرنے کے بعد میں دکھی ہوا اور اپنے بچپن کو یاد کیا۔ میرا تعلق درمیانے درجے کے ایک زمین دار خاندان سے ہے جس نے اپنی پہچان زمین داری کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کے ذریعے بنائی۔
میرے والد حکیم غلام حسین عادل مرحوم ایک نظریاتی شخص تھے جو واضح سیاسی نقطہ نظر رکھتے اور گھر میں گفتگو کے ذریعے اپنے اہل خانہ خاص طور پر بچوں کی تربیت کیا کرتے۔ کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ وہ سردیوں کا موسم تھا جب وہ ایک روز گھر داخل ہوئے اور خاموشی سے اپنی نشست پر نیم دراز ہو گئے۔ والدہ نے پریشاں ہو کر پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ کچھ دیر وہ خاموش رہے جیسے جذبات پر قابو پانے کی کوشش میں ہوں پھر کہا:
' آج خواجہ محمد رفیق کو شہید کر دیا گیا۔'
ہم لوگ 'جین زی' تو نہیں تھے کہ سو واٹ کہہ کر اپنے کام سے لگ جاتے۔ اس لیے پوچھ لیا کہ کون خواجہ محمد رفیق؟ جواب میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ شہید کا تعارف کرایا۔ خواجہ صاحب کون تھے اور کیا تھے، والد مرحوم کی بتائی ہوئی پوری تفصیل تو ذہن میں نہیں لیکن یہ تاثر پختہ ہو گیاکہ ان کا شمار ایسے صاحب کردار سیاسی کارکنوں اور راہ نماؤں میں کیا جا سکتا ہے جنھوں نے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی یوں حزب اختلاف کو مضبوط کیا۔ ابا جی نے بتایا کہ اپنے وقت کی جابر حکومت کے طرز عمل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے جرم میں ایک احتجاج کے دوران انھیں نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔
برادر بزرگ ملک محمد معظم نے ایک بار بتایا تھا کہ اس روز ہنگامہ اتنا شدید تھا اور آنسو گیس کے شیل اور گولیاں اس بے رحمی سے برسائے جا رہے تھے کہ ارد گرد یعنی فیصل چوک (چیئرنگ کراس)کی عمارتیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ ایک شیل روزنامہ ' وفاق' کا جہازی سائز کا بل بورڈ پھاڑتا ہوا نکل گیا۔ سن بیاسی تراسی میں جب میں ایک نو عمر طالب علم تھا، لاہور گیا تو کم و بیش چار انچ قطر کے اس سوراخ کو دیکھنے کے لیے خاص طور پر شاہ دین بلڈنگ پہنچا۔ یوں شاہ دین بلڈنگ، سوراخ والا بورڈ اور فیصل چوک میرے لیے خواجہ محمد رفیق کا استعارہ بن گئے جب کہ خواجہ محمد رفیق میرے لیے اختلاف رائے اور جرات مندانہ سیاسی مزاحمت کا استعارہ بن بنے۔
خواجہ صاحب کی شہادت کے کوئی آٹھ دس برس بعد کی بات ہوگی، انبالہ مسلم کالج کے ہفتہ طلبہ میں خواجہ صاحب شہید کا ایک صاحب زادہ شریک ہوا جس کے ساتھ بیٹھنا اور گپ لگانا میرے لیے اس لیے باعث اعزاز تھا کہ اس سے ایک شہید کی خوشبو آتی نیز اپنے والد گرامی کی یاد جنھوں نے بچپن سے ہی مجھے واضح سیاسی انداز فکر دیا اور سکھایا کہ جدوجہد کرنے والا ہر سیاسی کارکن قابل احترام ہوتا ہے۔
سال 1996 کی بات ہے۔ مسلم لیگ ن ان دنوں حزب اختلاف میں تھی۔ میاں نواز شریف صاحب نے فیصلہ کیا کہ ان کی جماعت کو سندھ میں بھی اپنی بنیاد مضبوط بنانی چاہیے۔ مرحوم عبد الحمید شیخ اور بعض دیگر مسلم لیگی کارکنوں نے اس زمانے میں جان توڑ کر کام کیا تھا جس کی پاداش میں حمید شیخ کے خلاف تو غداری کا مقدمہ بھی بنا۔ اسی زمانے میں ن لیگ کی صف اول کی قیادت نے سندھ کے طول و عرض اور بلوچستان کا دورہ کیا۔ ان راہ نماؤں میں مخدوم جاوید ہاشمی، راجا نادر پرویز اور خواجہ سعد رفیق شامل تھے۔
عمریں ایک جیسی ہونے کی وجہ سے اس دورے کے دوران میرا زیادہ وقت خواجہ صاحب کی رفاقت میں گزرا۔ یوں ہمیں ایک دوسرے کو جاننے کا زیادہ موقع ملا۔ اس موقع پر میں نے ان کی انبالہ مسلم کالج کے مباحثے میں شرکت کا ذکر کیا جس کی انھوں نے تصدیق کی۔
20 دسمبر خواجہ صاحب کے والد گرامی خواجہ محمد رفیق کا یوم شہادت ہے۔ وہ اس موقع پر ہر سال تقریب منعقد کرتے ہیں۔ یہ تقریب سیاسی کارکنوں کے ایک ایسے اجتماع کی روایت بن چکی ہے جو شیخ ابراہیم ذوق کے اس شعر پر پورا اترتی ہے جس کا ذکر ہوا۔ صرف پل، چاہ اور مسجد و تالاب ہی تو فیض رساں نہیں ہوتے، غور و فکر کو جلا بخشنے اور وسیع تر مشاورت کا ذریعہ بننے والے اجتماع بھی تو یہی کام کرتے ہیں۔
خواجہ برادران نے اپنے جلیل القدر والد کی برسی کو سیاسی کارکنوں کے مل بیٹھنے اور قومی مسائل پر غور فکر کا ذریعہ بنا دیا ہے تو بھی ایک قسم کا صدقہ جاریہ ہے جس کی جزائے خیر نہ صرف شہید کو ملتی رہے گی بلکہ ان کی لائق اولاد بھی اس انداز سے اس سے مستفید ہوگی کہ وہ اپنے والد کی طرح سے پوری جرات کے ساتھ درست راہ پر چلتی رہے گی اور ملک و ملت کے لیے خیر کا سامان کرے گی۔
خواجہ صاحب شہید کی برسی کا اس برس کا اجتماع ہمارے موجودہ سیاسی ماحول میں خاص طور پر یاد رکھی جائے گا کیوں کہ اس میں قومی مسائل کے حل کے سلسلے میں کچھ ایسی تجاویز سامنے آئی ہیں جو بروئے کار آگئیں تو ہماری سیاسی زندگی کے بہت سے آزار دور ہو جائیں گے۔
رانا ثنا اللہ نے اس موقع پر تجویز پیش کی میاں محمد نواز شریف ، صدر آصف علی زرداری اور عمران خان کو براہ راست مذاکرات کرنے چاہئیں، اس طرح پاکستان کے پچھلے ستر برس کے نہیں، آئندہ ستر برس کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ رانا صاحب کی اس تجویز کی بنیاد خواجہ سعد رفیق کی تجویز تھی جس میں انھوں نے سینئر سیاسی قیادت کے درمیان مذاکرات کی تجویز پیش کی ۔ ان راہ نماؤں میں مولانا فضل الرحمٰن، حافظ نعیم الرحمٰن، شاہد خاقان عباسی اور چند دیگر قائدین کے نام شامل تھے۔
ہمارے موجودہ سیاسی ماحول میں رانا صاحب کی یہ تجویز ایک بہت بڑی جست ہے جس پر عمل ہو گیا تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا۔ رانا صاحب کے اس بیان کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ن لیگ نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ خود میاں صاحب گرینڈ مذاکرات چاہتے ہیں۔
رانا صاحب کی طرف سے آنے والی تجویز صرف ان کی طرف سے نہیں بلکہ خود میاں صاحب کی طرف سے ہے۔ عمران خان مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں، انھوں نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ یہ پیش رفت حوصلہ افزا ہے۔ اب اگر بانی پی ٹی آئی مزید فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تجویز پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنے مسائل کی دلدل سے نکل جائے گا، ان شا اللہ۔
ممتاز مفتی کی عورت
ممتاز مفتی افسانے کی آبرو ہیں۔ ان کے بارے میں چند باتوں پر پوری اردو دنیا میں اتفاق رائے ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے نفسیاتی امراض کے عالمی شہرت یافتہ طریقہ علاج تحلیل نفسی کو افسانے میں برتا۔ یوں اردو افسانے کو عالمی افسانے میں ایک ایسا نمایاں مقام دلایاجس میں اس کا کوئی حریف نہیں۔ افسانے میں ان کا دوسرا بڑا کارنامہ عورت کے موضوع میں ندرت پیدا کرنا ہے۔ مفتی صاحب کے افسانے سے قبل اردو میں عورت کو یا تو طوائف کے طور پر برتا گیا ہے یا انسانیت کی معراج سے گری ہوئی ایک ایسی عورت کے طور پر جس پر صرف رحم کھایا جاسکتا ہے۔
ممتاز مفتی نے اس روایت میں ایک نئی راہ نکالی، عورت کو انسان کے طور پر اپنا کردار بنایا۔ یوں اردو افسانے میں عورت کو ایک باوقار مقام ملا۔ سید محمد علی اسلام آباد کے ادبی حلقوں کی ایک معروف اور جانی پہچانی شخصیت ہیں جن کی حال ہی میں ' ممتاز مفتی کی عورت ' کے عنوان سے کتاب شائع ہو ئی ہے جس میں اردو افسانے کے اسی پہلو کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ سید محمد علی نے بتایا ہے کہ ہمارے یہاں عورت کو سمجھنے کے لیے مغربی نظریات کا سہارا لیا گیا ہے۔
یہی غلطی تھی جس کی وجہ سے ہمارے یہاں عورت معمہ بن گئی۔ سید محمد علی کہتے ہیں کہ ممتاز مفتی کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی عورت کا تصور پیش کرتے ہیں جو انسانیت کو اپنے خون سے سینچتی ہے، خاندان کو بنیاد فراہم کرتی ہے اور بکھرے ہوئے سماج کو جوڑتی ہے۔ سید محمد علی نے ممتاز مفتی کے مطالعے کے ضمن قابل قدر کا م کیاہے جس کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا جائے گا۔