2024

مضبوط جوابی بیانیے کی ضرورت

افغانستان کی سر زمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی مسلسل جاری ہے۔


ایڈیٹوریل December 30, 2024
فوٹو فائل

پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے افغان طالبان کی پشت پناہی سے افغانستان سے خوارجیوں کی طرف سے دراندازی کی دو کوششوں کو ناکام دیا اور پندرہ خوارجیوں کو ہلاک کردیا جب کہ افغان طالبان کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ کے جواب میں فیصلہ کن کارروائی کرتے ہوئے چھے چوکیوں کو تباہ کردیا۔

دوسری طرف افغان عبوری حکومت کے وزیر اطلاعات نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پناہ دیتے رہنے کا اعتراف کر لیا۔ انھوں نے ریڈیو پر خطاب میں کہا کہ ہمیں مہمانوں کی حفاظت کے افغان قوم کے عہد کی پاسداری کرنی چاہیے۔

 درحقیقت پاکستان کے اندر دہشت گردی میں اندرونی و بیرونی دونوں عناصر شامل ہیں، یہ اندرونی عناصر دشمن کے اشاروں پر کھیل رہے ہیں۔ افغانستان کی سر زمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی مسلسل جاری ہے۔ عبوری وزیر اطلاعات نے پاکستانی دہشت گردوں کو ’’ مہمان‘‘ کا درجہ دیتے ہوئے افغان روایت سے جوڑ دیا تو کیا وہ پاکستان جس نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی اور گزشتہ چار دہائیوں سے افغانوں کو اپنے ملک میں پناہ دی اس کے لیے افغان اور اسلامی روایات کا اطلاق نہیں ہوتا، کیا یہ سراسر احسان فراموشی نہیں ہے؟ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں عبوری حکومت کی تائید حاصل ہے۔

 اس وجہ سے پاکستانی حکومت کے پُر زور اصرار کے باوجود بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی جب کہ افغانستان کے اندر پاکستان کے خلاف نفرت ابھارنے میں انڈیا کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ چونکہ انڈیا پاکستان کا دشمن ہے اور افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک اس لیے پڑوس میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنا انڈیا کا ایجنڈا ہے۔

حالیہ عرصے میں ٹی ٹی پی مالی لحاظ سے بھی مضبوط ہوئی ہے اور اس کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے۔ وفاقی حکومت اور خیبر پختو نخوا حکومت کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی دہشت گردی کے سر اُٹھانے کی بڑی وجہ ہے۔ ایسے میں دہشت گرد یہاں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اکثر لوگ ریاستِ پاکستان کو اس لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ پاکستان نے ان لوگوں کی افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے میں مدد کی ۔ اگرچہ یہ پالیسی پاکستان کے بقا کے لیے تھی لیکن بعد ازاں کچھ گروپ دشمن کے ہاتھوں لگ گئے۔ یعنی دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔

اس لیے انڈین اور اسرائیلی عناصر بھی اُن بے قابو گروپوں کی مدد اور سرپرستی کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا کا کردار بھی مشکوک اور خود غرضانہ ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر وہ ہر حد تک جاتا ہے، لیکن مفاد پورا ہونے کے بعد نئے دوستوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

طالبان اپنے نظریات دوسروں پر زبردستی تھوپ رہے ہیں، اس لیے وہ اپنے فیصلوں کے خلاف جانے والے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں چونکتے۔ طالبان کی جانب سے دوسرے مسلمان کا بلاجواز خون بہانے اور ان کے خلاف کارروائیاں کرنے کے باعث ہی انھیں خوارج کہا جا رہا ہے۔ طالبان کی بگڑی ہوئی سوچ کی اصلاح کے لیے آئمہ و خطباء کرام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

یہی وہ سوچ کا انداز ہے جو طالبان کے ساتھ ساتھ، القاعدہ، اخوان المسلمین، داعش کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ یہاں داعش سے متعلق یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ان کے ہاں جدید سائنسی علوم ممنوع ہیں۔ کسی بھی اسلامی ملک میں ان علوم کی ترویج ان کے نزدیک جائز نہیں۔ اس لیے انھوں نے شام میں جتنی لیبارٹریز تھیں تمام کو تہس نہس کردیا وہی کام جو کسی دور میں ہلاکو خان نے کیا کہ بغداد پر حملہ آور ہوکر وہاں کی لائبریریاں جلا دیں۔

 دوسری جانب کچھ نام نہاد دانشور طالبان اور افغانستان کی حمایت میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ لوگوں کو سچ بتائیں، جو نظریات اور عقائد اس قسم کے ظالمانہ حملوں اور بے گناہ لوگوں کو مارنے کی اجازت دیتے ہیں، اُن کا راستہ روکنا ہوگا۔ ہمارے پاس ان نظریات کو توڑنے اور شکست دینے کے لیے ایک جوابی بیانیہ counter Narrative ہونا چاہیے۔

ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ دہشت گردوں کا طریقہ غیر انسانی، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے۔ ہمیں ایسی تربیت گاہوں کا بھی صفایا کرنا ہوگا جن میں انسانیت کو مارنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ اب نسبتاً کم لاگت میں دشمن کمیونیکیشن وار فیئر کا ایسا اسلحہ بنا لیتا ہے جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی میں ممکن نہیں تھا، اگر آج ہم اپنی صورت حال کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ دشمن کیسے مرحلہ وار ڈیجیٹل کمیونیکیشن سے ڈیجیٹل ٹیرر ازم (دہشت گردی) پھیلا رہا ہے۔

ہمارے سماجی رابطے کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ایسے مواد سے بھرے ہوئے ہیں جو ہمارے اخلاقی اور سماجی رویوں اور نظریات کی نفی کرتے ہیں۔ خبر اور بیان اس طرح سے دلچسپ یا سنسنی خیز بنایا جاتا ہے کہ توجہ کا مرکز بن جائے اور پھر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز خود جن بنیادی عوامل پر کام کرتے ہیں اور کیسے منفیت، تحقیر اور سنسنی کو زیادہ پھیلاتے ہیں، یہ ایک الگ بحث ہے اور نتیجے میں معاشرے میں بے یقینی، ہیجان اور نفرت کا ماحول بنا دیا گیا ہے اور مرحلہ وار حملہ آور ہوتے ہوئے اس نفرت کے ماخذ کی تشخیص بھی مہیا کر دی گئی ہے اور تشخیص کی دوا بھی دریافت کر لی گئی ہے۔

ایک عام انسان جوکہ ابلاغیات کے اصول و قواعد نہیں سمجھتا تو وہ بہرطور ایسے مواد سے اثر انداز ہوتا ہے۔اب اگر سوال یہ اٹھایا جائے کہ کیا اس نفرت اور انتشار کو روکا جا سکتا تھا، کیا معاشرے کو اس خوف اور بے یقینی سے بچایا جا سکتا تھا تو جواب ہے کہ ہاں۔ درست اور بروقت اقدام اٹھا کر اس عفریت کو روکا جا سکتا تھا۔ دہشت گردوں کو ہیروز بناکر پیش کیا جا رہا ہے، ہر وہ سوچ جو ملک میں بدامنی اور انتشار کا باعث بنی، اس کی بے جا تشہیر کی جا رہی ہے اور سیاست دان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں روایتی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل دہشت گردی پر بھی اپنی پکڑ مضبوط کرنا پڑے گی۔پاکستان ایک لمبے عرصے سے ایک ہولناک اور انسانیت سوز دہشت گردی سے گزر رہا ہے جس میں پورے پاکستان میں چُن چُن کر لوگوں کو شہید کیا گیا ہے۔

یہ سانحات بلوچستان میں بھی ہوئے، سندھ اور کراچی میں بھی ہوئے، پنجاب اور لاہور میں بھی ہوئے اور خیبر پختونخوا اور فاٹا میں بھی تواتر سے ہو رہے ہیں، یہ حملے فوجیوں پر ہوئے، پولیس پر ہوئے، غیر مسلح عام عوام پر بھی ہوئے۔ مسجدوں، جنازوں، امام بارگاہوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بازاروں، پولیس اسٹیشنوں، فوجی چھاؤنیوں، تربیت گاہوں، کورٹ کچہری اور تقریباً ہر ادارے اور ہر پاکستانی پر ہوئے۔ اس کی زد میں معصوم بچے بھی آئے، خواتین، نوجوان، بوڑھے سب کے سب اس کا نشانہ بنے۔

پشتون، بلوچ، سندھی، پنجابی، ہزارہ کمیونٹی اور دوسری تمام قومیتیں بھی اس ظالمانہ فعل سے بچ نہ سکیں، اگر ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ دہشت گردی پورے پاکستان کے خلاف ہے۔ ہر مکتبہ فکر اور ہر قومیت کو نشانہ بنایا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا عام شہری سب اس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اس دشمن کو معلوم نہ کر پائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک ہم لاشیں اُٹھائیں گے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا آخر اس کا کوئی اختتام بھی ہونا چاہیے۔ ہم ایک تہذیب یافتہ دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس دور میں اتنی بے دردی سے خون ریزی کرنا ہماری اجتماعی دانشمندی اور اجتماعی علم پر سوالیہ نشان ہے۔ اس لیے اب ہمیں اس کے حل کی طرف آنا چاہیے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی پاکستان ہر ممکن کوشش کر رہا اور وہاں تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے مگر طالبان کی غلط پالیسیاں اس راہ میں مزاحم ہیں۔

خود کش بمبار کو روکنا آسان نہیں۔ اس کے لیے سیکیورٹی کا سخت ہونا کافی نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن اندرونی سہولت کاروں اور بیرونی عناصر کی اعانت کے باعث دہشت گردی میں کمی نہیں آرہی۔ جڑ سے دہشت گردی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکیورٹی کے انتظامات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مزید بہتر بنانا ہوں گے۔ اگر دہشت گردوں کو پیسہ کہیں باہر سے آ رہا ہے تو وہ پیسہ بند کریں۔ اور دہشت گردوں کی نرسری اور تربیت گاہوں کی نشاندہی کرکے دہشت گردی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس مخصوص سوچ سے نمٹنے کی سعی نہیں کی گئی، اس سوچ کے مقابل کاؤنٹر نیرٹو (counter narrative) پیش نہیں کی گئی اور جس نے بھی اس نوع کی کاوش کی اسے راستے سے ہٹا دیا گیا، کیونکہ ان کے نظریے کو عوام و خواص میں قبولیت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور یوں طالبان کو ان سے خطرہ لگا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ان کا چہرہ بے نقاب ہوا اور حکومت کا المیہ یہ رہا کہ وہ اس طرح کے جرات مندانہ اقدام کرنے والوں کی حفاظت نہ کرسکی۔

اس پس منظر میں ریاست کو اپنی ذمے داریوں سے واقفیت رکھنا اور ان سے عہدہ برآ ہونا بہت ضروری ہے اگر ریاست اپنی ذمے داریاں صحیح معنوں میں انجام دے تو بہتری یقینی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں