2024

پیپلز پارٹی کے بدلتے تیور

پیپلزپارٹی نے بظاہر اس حکومت کاساتھ ضرور دیا ہے لیکن وہ دل سے اس اتحاد کے لیے راضی نہ تھی


[email protected]

عام طورسے ہمارے یہاں ہراتحادی حکومت کو دوران اقتدار اپنے اتحادیوں سے یہ خطرہ لاحق رہتاہے کہ کب وہ اسے بلیک میل کرناشروع کردیں اوراُسے اپنے آخری سال تو لازمی اس خطرے سے دوچار ہونا پڑتا ہے،لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ موجودہ مسلم لیگی حکومت کو اپنے دور اقتدار کے پہلے ہی برس بلکہ دس ماہ میں ہی یہ مشکل درپیش ہونے لگی ہے۔

یہ ہمارے جمہوری سسٹم کی پہلی حکومت ہے جسے الیکشن کے بعد لینے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھاکیونکہ اس وقت کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس بھی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہ تھی اور وہ جس طرح بنائی گئی ہے وہ بھی ہم سب کومعلوم ہے۔پیپلزپارٹی نے بظاہر اس حکومت کاساتھ ضرور دیا ہے لیکن وہ دل سے اس اتحاد کے لیے راضی نہ تھی۔ہرسیاسی جماعت کو اپنے ووٹروں اور حامیوں کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی حریف جماعت کی مخالفت کرنا ضروری ہوتاہے،وہ اگرایسانہ کرے تواسے اپنا ووٹ بینک بنائے رکھنا ناممکن ہوجاتاہے۔

2008 کی زرداری حکومت کے ابتدائی مہینوں میںپاکستان مسلم لیگ نے بھی میثاق جمہوریت کے تحت پیپلزپارٹی کابھرپور ساتھ دیا اورکابینہ کا حصہ بھی بنی بلکہ مشرف کے مواخذے کے لیے اسمبلی میں ووٹوں کی مطلوبہ کمک بھی فراہم کردی، جس کے نتیجے میں مشرف ووٹنگ سے قبل ہی فارغ ہوگئے اور زرداری صاحب مسند صدارت پرفائز ہوگئے۔

آصف علی زرداری صاحب کو صدر بنانے میں بھی مسلم لیگ نون نے بھر پور ساتھ دیا اور ووٹ بھی ڈالا۔ لیکن زرداری صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب ججوں کی بحالی سے متعلق کیے گئے معاہدے پرعملدرآمد کرنے سے انکار کردیا تومسلم لیگ نون نے بھی اپنے وزرا ء بلالیے اورمخالفت شروع کردی ۔اور پھر ججز بحالی کے تحریک کے نام پر اسلام آباد کی طرف ایک لانگ مارچ کااہتمام کرڈالا۔اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی سارے جج بحال ہوگئے اوریہ تحریک کامیاب و سرخرو ہوگئی۔

پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ کامیاب ہو کر اقتدار میں آگئی۔یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی بہت بڑی مخالف بھی رہی ہیں اورالیکشنوں میں زبردست حریف بھی۔ یہ کسی مجبوری کے تحت ایک دوسرے کاساتھ بھی نبھاتی ہیں اوروقت پڑنے پرآنکھیں بھی دکھاتی ہیں۔

2024کے الیکشنوں میں بلاول بھٹو کو بہت امید تھی کہ وہ اس بار وزیراعظم ضرور بن جائینگے،لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کرکے ان کی یہ خواہش پوری ہونے نہ دی۔یہ وہ واحد الیکشن تھاجس کے اختتام پرکوئی بھی جماعت اقتدار لینے کی موڈ میں نہ تھی۔سب جانتے تھے کہ ملک کو درپیش معاشی حالات انتہائی دگر گوں ہیں اور ایسے میں مخلوط حکومت بناکر دیر تک ساتھ چلنا ناممکن ہے۔

لہٰذا سب نے یہ ذمے داری اپنے سر لینے سے انکار کردیا۔ساری جماعتیں سیاسی قربانی دینے سے خود کوبچاتی رہیں اورپھر مسلم لیگ نون نے طوعاً وکرہاً بالآخر یہ ذمے داری اس شرط پرقبول کرلی کہ پیپلزپارٹی بھی اس کے ساتھ شریک ہوگی۔

یہاں پیپلزپارٹی نے بڑی شاطر چال چلی اوروفاق میں ساتھ دینے کے لیے تمام آئینی عہدے مانگ لیے ۔ساتھ ہی ساتھ اس نے کابینہ کا حصہ بننے سے بھی انکار کردیا۔ وہ جانتی تھی کہ خرابی معیشت کی وجہ سے حکومت چلانا بہت مشکل ہوگا اوروہ اس طرح ناکامیوں کی ذمے داری کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔

آج وہ اس حکومت کو قائم ودائم رکھنے میں تو ساتھ دے رہی ہے مگرناکامیوں کی ذمے دار ہرگزنہیں ہے۔زرداری صاحب اس اتحاد کی بدولت صدر مملکت کے عہدے کے ثمرات سے دوسری بار مستفید ہورہے ہیں اورخود پیپلزپارٹی دوصوبوں میں حکومت بناکرانجوائے کررہی ہے۔

اس وقت ملک کے دوسرے دو صوبوں میں اس کے گورنر بھی راج کررہے ہیں۔یہ اتحاد اگر نہ ہوتاتوشاید وہ صرف ایک صوبے میں حکومت کی حقدار ہوتی ۔ بلاول بھٹو جنھوں نے اپنے والد محترم کی مرضی و خواہش کو تسلیم کرتے ہوئے وقتی طور پر اس اتحادی معاہدے پررضامندی ظاہرکردی لیکن وہ دل سے اس معاہدے سے خوش نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہربیان میں وہ موجودہ حکومت کو نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔وہ وزیر اعظم سے جب ملتے ہیں تو بڑی گرم جوشی سے ملتے ہیں لیکن جب کوئی تقریر کرتے ہیں توانھیں اپنی تنقید کانشانہ بھی بنارہے ہوتے ہیں۔

اس وقت کیونکہ سیاسی فضااورماحول مکمل طور پر واضح نہیں ہے اورتحریک انصاف کی مقبولیت بھی انھیں حکومت گرانے سے روکے ہوئے ہے ، شاید اسی وجہ سے وہ دبے لفظوں اور دھیمے لہجوں میں حکومت کی مخالفت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جیسے ہی صورتحال کچھ واضح ہوتی دکھائی دے گی وہ اس حکومت کو ایک دن بھی چلنے نہیں دینگے۔لگتا ہے ان کے والد محترم نے انھیں ابھی اس کام سے روکا ہوا ہے ۔

اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بزرگوں کے بارے میں وہ اکثر طعنہ زنی بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ ان کے فیصلوں کو ذہانت اوربصیرت سے عاری تصورکرتے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ایک بزرگ سیاستداں اُن کے اپنے والد محترم ہیں جنکی ذہانت اورسیاسی بصیرت کے ہم سب قائل ہیں۔یہ اسی بزرگ کی کرامت ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی شہادت کے فوراً بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرمین شپ کے وارث وہ قرار دیے گئے۔

وہ آج جس دولت اور جاگیرکے مالک ہیں وہ بھی اسی بزرگ کی ذہانت کی بدولت اُن کے حصے میںآئی ہے۔دیکھاجائے تو سیاست میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔دنیا میں بہت سے حکمراں ایسے ہیں جو شاید ان کے مطابق بزرگوں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکا کے موجودہ اور اگلے صدر بھی جوانی گزار چکے ہیں۔ مگر وہاں عوام نے ان کی درازی عمر پرکوئی اعتراض نہیں لگایا۔اسلام آباد کے بزرگوں کاذکرکرتے ہوئے وہ دراصل صرف شہباز شریف کو ہدف تنقید بنارہے ہوتے ہیں۔

حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں شہبازشریف نے اپنی بزرگی اوربیماری کو کبھی اپنی کارکردگی میں حائل ہونے نہیںدیا۔ وہ جوانوں سے زیادہ سرگرم اورمستعد ہیں۔انھوں نے اِن دس ماہ میں بہت سے ٹارگٹ پورے کیے ہیں اوریہ ثابت بھی کردیا ہے کہ ملک کو درپیش مشکل حالات میں وزارت عظمیٰ کے لیے وہی سب سے اچھا انتخاب تھے۔خود بلاول صاحب بھی ان کی کارکردگی کے بڑے معترف ہیں ۔مگر کیاکریں سیاست میں زندہ رہنے اوراپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے مخالفت تو کرنا پڑتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں