بانی پی ٹی آئی کی محبت میں مبتلا نو مئی کو ملک کی تاریخ میں پہلی بار اپنے محسن اور ملک دشمنوں سے مقابلے میں جانیں قربان کرنے والوں کی املاک پر حملے کرنے والے 25 سیاسی کارکنوں کو جرم ثابت ہو جانے پر کئی کئی سال قید بامشقت کی سزائیں فوجی عدالتوں سے سنا دی گئی ہیں۔
سزائے قید پانے والوں میں کوئی رکن اسمبلی، پی ٹی آئی کا کوئی بھی عہدیدار شامل نہیں بلکہ وہ لوگ خصوصاً نوجوان شامل ہیں جن کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے جن میں اکثر کے پاس اپنی سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹوں میں اپیل کرنے کی مالی طاقت بھی نہیں ہے جس کے لیے اب وہ پی ٹی آئی کے وکیلوں کے محتاج ہیں جو اب پی ٹی آئی کی قیادت کر رہے ہیں جن میں کروڑوں روپے فیس لینے والے وہ ممتاز وکلا بھی شامل ہیں جو بانی پی ٹی آئی کی مفت میں وکالت کر رہے ہیں۔
ان مشہور وکیلوں میں بعض کو بانی کی مفت پیروی کے صلے میں پہلی بار پارلیمنٹ میں پہنچنے کا موقعہ ملا ہے۔ اگر ان مہنگے وکیلوں نے مفت میں بانی پی ٹی آئی کی پیروی نہ کی ہوتی وہ زندگی میں پہلی بار منتخب نہ ہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ ان بڑے وکیلوں کے پاس بانی کی محبت میں سزا پانے والے 25 مجرموں کی رہائی کے لیے تو وقت ہی نہیں ہوگا کیونکہ وہ بانی کے علاوہ پی ٹی آئی کے امیر عہدیداروں کے بھی عدالتوں میں کیس لڑ رہے ہیں شاید بانی کو اپنے علاوہ اپنے ان غریب کارکنوں کی محبت کا احساس ہو جائے اور وہ پارٹی کے وکیلوں کو ان غریب سیاسی کارکنوں کو بچانے کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کرنے کی ہدایت کردیں۔
ان غریب مجرموں نے نو دس مئی کو جو شرم ناک حرکت کی تھی اس کی سزا کی انھیں توقع نہیں ہوگی کیونکہ انھیں کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف کچھ نہیں ہوگا اور پی ٹی آئی کی حکومت بحال ہو جائے گی۔ ان معصوم سیاسی کارکنوں نے نو مئی کو اس بانی پی ٹی آئی کی سیاسی محبت میں عسکری املاک پر حملے کیے جو 2018 میں فوج کے دن رات گن گاتا تھا اور فوجی جنرلوں پر تنقید کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا کرتا تھا۔
سزا پانے والے ان سیاسی کارکنوں کو اپنے چیئرمین کی وہ سفاکی یاد نہیں ہوگی کہ جس کے سامنے ملتان کے پی ٹی آئی جلسے میں ہونے والی بھگدڑ میں دو کارکن ہلاک اور متعدد کچلے گئے تھے جنھیں شدید زخمی حالت میں فوری اسپتال پہنچانے کے لیے ہجوم سے گزارنا ممکن نہیں تھا تو انھیں مجبوری میں اسٹیج پر چڑھا کر دوسری طرف جب لے جایا جا رہا تھا تو بانی کی تقریر جاری تھی اور اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں سے لاپرواہ چیئرمین نے نہ تقریر بند کی تھی نہ اظہار افسوس کیا تھا بلکہ بھگدڑ کا ذمے دار ملتان کی انتظامیہ کو قرار دے کر اپنی انتہائی سنگدلی کا ثبوت دیا تھا۔
یہ وہی بانی ہے جو کبھی اپنے سیاسی کارکن کی وفات پر تعزیت کے لیے تو کیا کبھی اپنے رہنما یا اپنے دیرینہ ساتھی نعیم الحق کی وفات پر تعزیت کرنے مرحوم کے گھر نہیں جاتا تھا جو اس کی کارکنوں کی قدر کا ثبوت ہے اور نو مئی کو اس رہنما کے لیے کئی کارکن اپنی جانیں دے چکے ہیں۔
یہ سنگدلی بانی پی ٹی آئی سمیت بعض دیگر سیاسی قائدین میں بھی موجود ہے۔ بے نظیر بھٹو کے پاس اپنے کارکنوں کی قدر تھی یا جماعت اسلامی میں اپنے کارکنوں کی قدر و اہمیت ضرور ہے۔ باقی کسی سربراہ کے پاس اپنے کارکنوں کی کوئی قدر نہیں اور سب اپنے سیاسی کارکنوں کو قربانی کے بکرے سمجھتے ہیں۔
پہلے میں ان معصوم سیاسی کارکنوں کو اپنے آبائی شہر شکارپور کے پیپلز پارٹی کے نوجوان جیالے لالا جہانگیر خان کا بتا چکا ہوں جو پولیس کے ہاتھوں اپنے نچلے دھڑ سے معذور ہو چکا تھا جس کی بحالی کی کوشش وزیر اعظم بے نظیر نے سرکاری خرچ پر ضرور کی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی تھی اور لالا جہانگیر عمر بھر کے لیے مکمل طور پر جسمانی معذور ہو گیا تھا اور بعد میں پیپلز پارٹی میں اس کی قدر نہیں ہوئی تو مایوس ہو کر جہانگیر نے پریس کانفرنس میں پارٹی میں اپنی بے قدری کی شکایات بیان کرکے خودکشی کرلی تھی۔ پی ٹی آئی سمیت دیگر پارٹی قائدین سے سیاسی محبت کرنے والے معصوم خصوصاً غریب سیاسی کارکنوں کو لالا جہانگیر کی پارٹی سے محبت اور نتیجے میں پیپلز پارٹی میں اس کی بے قدری اور معذوری میں زندگی سے مایوس ہو کر خودکشی کر لینے کے عبرت ناک انجام سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کن سنگدل قائدین کے لیے یہ سیاسی قربانیاں دیر رہے ہیں۔