2024

بلونگڑا

میں نے زندگی میں کامیابی کا اصل گر‘ بلونگڑے سے سیکھا ہے۔


راؤ منظر حیات December 30, 2024
[email protected]

ظہیر صاحب‘ میرے پرانے دوست نہیں ہیں، طالب علم کو کاروبار کی دنیا میں آئے محض چار برس ہوئے ہیں۔ ظہیر تقریباً پچھتر برس کے ہیں، پوری زندگی کاروبار کرنے اور اسے بڑھاتے ہوئے گزری، سارا دن مصروف رہتے ہیں۔ ایک دن دفترآئے اور کہنے لگے، اتوارکو چھٹی ہوتی ہے، کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ ان کا گھر میرے غریب خانہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ کوئی ایک بجے کا وقت طے ہوا، میں مقررہ وقت پر پہنچ گیا۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے اور گپ شپ شروع ہو گئی۔

اسی دوران ایک بدنما سی بلی آئی اورمیزبان کی گود میں بیٹھ گئی۔ بلی سکون اور آرام سے بیٹھی ہوئی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ ہماری ساری باتیں سن کر سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کھانے کے لیے اٹھے تو میزبان نے اسے پیار سے کندھے پر بٹھا لیا۔ ہم ڈرائنگ روم میں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ بلی کے لیے ایک علیحدہ پیالہ نما برتن رکھا ہوا تھاجس میں اس کا کھانا بھی موجود تھا۔

جس طرح ہم نے لنچ کیا بالکل اسی حساب سے اس جانور نے بھی خاموشی سے طعام کیا۔ کافی کے لیے جب واپس ڈرائنگ روم میں بیٹھے تو بلی بھی واپس آئی اور ظہیر صاحب کے قدموں میں بیٹھ گئی۔جانور سے صاحب خانہ کی اتنی انسیت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا،ان سے پوچھ ہی لیا ، لگتا ہے،آ پ کو بلی سے بہت لگاؤ ہے۔ ظہیر صاحب نے غور سے مجھے دیکھا، لگاؤ نہیں ‘ یہ بلی میری فیملی کا اہم حصہ ہے۔ میں خود اسے کھانا ڈالتا ہوں۔ خود‘ ہر دو ہفتے کے بعد اسے نہلاتا ہوں۔

جب گھر آتا ہوں تو یہ میرے قدموں کی چاپ کاانتظار کر رہی ہوتی ہے۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوتا ہوں، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں بھی بیٹھوں، یہ فوراً بچوں کی طرح‘ میری گود میں بیٹھ جائے۔ میں بولا، اس پالتو جانور سے آپ کا لگاؤ ٔواقعی بہت زیادہ ہے۔ ظہیر صاحب نے بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں نے کاروبار دراصل اس جانور سے سیکھا ہے۔ میرے لیے جواب باعث حیرت تھا۔ ظہیر صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر‘ تم نے میری دکھتی رگ چھیڑ دی ہے۔ ذرا غور سے بات سنو ۔ آج سے ٹھیک پندرہ برس پہلے میں کاروبار میں بری طرح ناکام ہو گیا۔ دفتر کا کرایہ دینے کے پیسے تک نہیں رہے۔

گاڑی بک گئی‘ گھر بیچ کر کرائے کے پانچ مرلے کے گھر میں منتقل ہو گیا۔ بیوی بچے بھی سخت اذیت میں چلے گئے۔ بیوی نے کہا کہ آپ کا کاروبار‘ بڑا اچھا چل رہا تھا۔ شاید کسی نے جادو کر دیاہے، ہر چیز ٹھپ ہو گئی ہے۔ وہ مجھے پیروں فقیروں کے پاس لے گئی۔ ایک عامل پیر تو فرمانے لگے کہ کاروباری رقابت رکھنے والے لوگوں نے آپ پر تعویذ کرائے ہوئے ہیں۔ اور میرے موکل ‘ بس ہر چیز ٹھیک کر دیں گے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ عامل نے پچیس ہزار روپے مانگے۔ جو ایک دوست سے ادھار پکڑ کر بڑی مشکل سے ادا کیے۔ عامل کے مطابق دو ہفتوں میں موکل سب ٹھیک کر دیں گے۔ دو ماہ گزر گئے مگر کچھ بھی ٹھیک نہ ہوا۔

میرے اوپر قرض‘ چڑھ چکا تھا۔ لوگ ‘ پیسے مانگنے آتے تھے ۔ اور میں ہاتھ جوڑ کر مہلت لے لیتا تھا۔ ایک دن فیصلہ کیا کہ اب زندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا ‘ اس بے کار زندگی سے نجات حاصل کر لینی چاہیے۔ مطلب یہ کہ خود کشی کر لینی چاہیے۔ فیصلہ کیا کہ چلتی ٹرین کے سامنے کود جاؤں گا۔ ریل کی پٹڑی کوئی دس منٹ کے فاصلے پر تھی۔ خاموشی سے اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے پیدل روانہ ہو گیا۔ ہر چیز کو حسرت سے آخری بار دیکھ رہا تھا۔ بیوی بچوں کو بتایا کہ ایک دوست سے ملنے جا رہا ہوں۔

ذرا دیر ہو جائے گی۔ اپنے کمرے میں خط لکھ کر چھوڑ دیا کہ میں آپ سب سے شرمندہ ہوں کہ ایک اچھی زندگی نہیں دے پایا۔ اور ایک ناکام زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ بس اسے ختم ہی کر لوں۔ خط میں سب سے معافی مانگی اور دعاؤں کی درخواست بھی کر دی۔ پٹڑی سے تھوڑا سا پہلے کافی کھدائی ہوئی تھی۔ اس میں ایک گڑھا تھا۔ جو بہت گہرا معلوم ہو رہا تھا۔ اس میں پانی موجود تھا۔ سخت سردی تھی۔ سورج غروب ہونے چلا تھا۔ مگر ابھی ہلکی ہلکی روشنی موجود تھی۔ گڑھے کے کنارے سے گزرنے لگا تو ایک بلی کے بچے کی آواز آئی۔ اس کو سن کر رک گیا۔ دیکھا کہ بلی کا نحیف سا بچہ پانی میں بھیگا ہوا تھا۔

اس پر شدید سردی سے کپکپی طاری تھی اور گڑھے سے نکلنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ میں رک گیا۔ گڑھے کے کنارے پر بیٹھ کر بڑے غور سے اس بلونگڑے کی زندہ باہر نکلنے کی کوشش کو دیکھنے لگا۔ معلوم تھا کہ یہ زندگی کی آخری گھڑیاں ہیں۔ لہٰذا ذرا یہ ماجرا بھی دیکھ لوں۔ بلی کا بدنما سا بچہ‘ گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے مختلف راستے تلاش کر رہا تھا۔ مگر ہر بار ناکام ہو کر پھر پانی میں گر جاتاتھا۔ مگر پھر کسی اور راستے سے باہر نکلنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا تھا۔

میں ساکت ہو کر سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مجھے اپنی زندگی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ تو میں نے اس بلونگڑے کی کیا مدد کرنی تھی؟ آٹھ دس بارگرنے کے بعد وہ بلونگڑا مکمل تھک چکا تھا۔ گمان تھا کہ اب وہ تھوڑی ہی دیر میں مر جائے گا۔ مگر گڑھے کے اندر ایک ٹہنی موجود تھی جو نزدیک درخت سے اندر کی طرف جھکی ہوئی تھی۔ بچے نے بچی کچھی طاقت سے چھلانگ لگائی اور ٹہنی کے کونے کو اپنے دانتوں سے پکڑ لیا۔ پھر ٹہنی کو گڑھے کی دیوار تک لے گیا۔ اس کے بعد اپنے پنجوں کو مٹی میں گاڑھ کر آہستہ آہستہ باہر آ گیا۔ میں اس بلونگڑے کی قوت ارادی دیکھ کر حیران رہ گیا۔

اسے آہستہ سے پکڑا اور بغل میں دباکر گھر واپس آ گیا۔ اپنے کمرے میں اسے نہلایا اور بستر پر لٹا دیا۔ وہ بلونگڑا‘ اس طرح گہری نیند سویا جیسے صدیوں بعد آرام میں آیا ہے۔ قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھ گیا سوچنے لگا کہ اگر بلی کا کمزور بچہ ایک حکمت عملی کے تحت اپنی جان بچا سکتا ہے۔ تو میں کیوں مرنے جا رہا ہوں۔ اتفاق سے میرا خودکشی کا نوٹ کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا۔اس کے پرزے پرزے کیے ۔ اگلے دن سے اپنے کاروبار میں حکمت عملی کو بالکل تبدیل کر دیا۔ ایک کرایہ کا ہال لیا اور وہاں ادھار پر چندمشینیں لگا کر ‘ وہی پرزے بنانے شروع کر دیے جو اپنی بڑی فیکٹری میں بناتا تھا۔

ایک دو مزدور رکھے اور خود ہاتھ سے کام شروع کر دیا۔ دو تین ماہ میں بے تحاشہ آڈر ملنے شروع ہو گئے۔ کیونکہ میں نے معیاری پرزوں کی قیمت ‘ مارکیٹ سے کافی کم رکھ دی تھی۔ منافع بھی قدرے کم ملتا تھا مگر کام کے حجم کو بڑھادیا۔

ایک سال کے کم عرصے میں ‘ بڑا کارخانہ لگانے کی طرف چل پڑا۔ آج ماشاء اللہ چار فیکٹریاں ہیں‘ اور گیارہ ہزار لوگ میرے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ میں نے زندگی میں کامیابی کا اصل گر‘ بلونگڑے سے سیکھا ہے۔ اس کے بعد آج تک یہ بلی ہمارے گھر کا فرد بن چکی ہے۔ عرصے کے بعد میںنے اپنی بیوی بچوں کو سارا واقعہ سنایا۔ تو سب زارو قطار رونے لگے۔ بہر حال اب میں انتہائی خوشحال ہوں اور اس بلی کو دیکھ کر روز اپنا عزم دہراتا ہوںکہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے صرف سوچنے اورکام کرنے کے انداز کو بدلنا ہوتا ہے۔

عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ہرانسان کی عملی زندگی میں کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ناکامیوں کا کونہ بھی ہوتا ہے۔ کئی بار ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہوتا۔ ہم ضعیف العتقاد بن جاتے ہیں مگر اپنی ناکام حکمت عملی کو بدلتے نہیں ہیں۔ زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہر ناکامی کی ایک عمر ہوتی ہے۔ اپنے سوچنے اور کام کرنے کے اندازکو تبدیل کر کے‘ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

کوئی ناکامی‘ دائمی نہیں ہوتی اسے شکست دی جا سکتی ہے۔ اگرایک بلی کا بچہ ‘ شدید سردی میں ‘ گڑھے سے باہر نکل سکتا ہے تو ہم محنت کر کے اپنا مقدر کیوں تبدیل نہیں کر سکتے۔ آپ جب بھی مایوس ہوں‘ اور کوئی راستہ نظر نہ آئے ‘ تو اس بلونگڑے کی ہمت اور زندہ رہنے کی جدوجہد کو ذہن میں ضرور لائیں۔ خدا کے فضل سے ہر ناکامی ختم ہو جائے گی اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں