حریف سے لڑیں آپس میں نہیں

محسن نقوی نے پلیئرز پاور ختم کر کے ملکی کرکٹ پر بہت بڑا احسان کیا


سلیم خالق December 30, 2024

کراچی:

’’تم دیکھنا آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں اس ٹیم کا کیا حال ہوتا ہے، پھر پی سی بی حکام کو پتا چلے گا کہ کرکٹ کے معاملات سنبھالنا آسان کام نہیں ہوتا، ہم بھی تنقید کے نشتر برسانے کیلیے تیار بیٹھے ہوں گے‘‘

چند ماہ پہلے کی بات ہے ایک ’’کرکٹ ماہر‘‘ نے یہ بات کہی، ویسے جب سے ٹی وی چینلز آئے سب ہی ماہر بن گئے، ایسے ایسے لوگوں کے نام پر کرکٹ ماہر لکھا ہوتا ہے جو خود سے یہ سوال کرتے ہوں گے اچھا میں بھی ماہر ہوں۔

ماضی میں جب ٹیم کی کارکردگی خراب ہوتی تو سب کی توپوں کا رخ کرکٹ بورڈ کی جانب ہوجاتا،کسی کو چیئرمین پسند نہیں ہوتا، کسی کو کپتان سے چڑ ہوتی تو کوئی من پسند کھلاڑیوں کی عدم شمولیت پر سلیکٹرز سے ناراض ہوتا۔

موجودہ دور میں کرکٹ بورڈ اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ سربراہی محسن نقوی کے ہاتھوں میں ہے، وہ وزیر داخلہ بھی ہیں اسی لیے صحافی تو کیا سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی سوچ سمجھ کر تنقید کرتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کو لگتا تھا کہ اہم ٹورز میں ٹیم کی کارکردگی خراب رہے گی جس سے بورڈ دباؤ میں آ جائے گا، البتہ ورلڈکپ میں ٹیم امریکا تک سے ہار گئی کچھ نہیں ہوا، بس دبے الفاظ میں تھوری بہت تنقید ہی ہوئی،اب تو ٹیم کی کارکردگی میں حیران کن بہتری نظر آنے لگی ہے۔

آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے مضبوط حریفوں کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر ون ڈے سیریز میں ہرانا کوئی معمولی بات نہیں، ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی گوکہ اچھی نہیں لیکن ٹیسٹ کا کھیل دیکھ کر دنیا حیران ہے۔

چند ماہ قبل ہم اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ کہیں ملکی کرکٹ کا حال  ہاکی جیسا نہ ہوجائے اور اب بہتری دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے بہت جلد دوبارہ ٹاپ ٹیموں میں شامل ہو جائیں گے۔

بڑے عرصے سے یہ رونا رویا جا رہا تھا کہ ملک میں نیا ٹیلنٹ موجود نہیں لیکن اب یہ بات غلط ثابت ہو چکی، صائم ایوب اور سلمان علی آغا جیسے کئی ینگسٹرز ٹیم میں مستقل جگہ بنا چکے ہیں،سب سے بڑا مسئلہ سلیکٹرز کی غلط سوچ تھی، ضروری نہیں کہ آپ تمام نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں لے آئیں تجربہ کار پلیئرز بھی اچھا پرفارم کر سکتے ہیں۔

فٹنس بھی اولمپکس میں حصہ لینے والی ضروری نہیں ، جو میچ فٹ ہو اسے کھلائیں، جیسی پچ اورکنڈیشنز ہوں اس لحاظ کے کرکٹرز منتخب کریں، عاقب جاوید نے ایسا ہی کیا ،وہ 38سالہ اسپنر نعمان علی کے ساتھ ساجد خان کو  ٹیم میں لائے جنھوں نے پاکستان کو انگلینڈ کیخلاف سیریز جتوا دی۔

اب جنوبی افریقہ سے ٹیسٹ سیریز میں34 سالہ پیسر محمد عباس کو موقع دیا جنھوں نے پہلے ٹیسٹ میں ٹیم کو فتح کی دہلیز پر پہنچا دیا تھا لیکن آخر میں بازی پلٹ گئی، عباس کے بارے میں یہی کہا جاتا تھا کہ عمر زیادہ ہو گئی اور پیس کم ہے، وہ مسلسل انگلش کاؤنٹی کرکٹ میں عمدہ پرفارم کر رہے تھے، رواں سال قائد اعظم ٹرافی میں بھی اچھا کھیل پیش کیا جس کی وجہ سے واپسی ہوئی۔

یہ بالکل درست بات ہے کہ عباس بہت تیز رفتار بولر نہیں ہیں، ان کی کامیابی ایکوریسی اور سوئنگ میں ہے، بولنگ میں ورائٹی انھیں منفرد بناتی ہے،عباس کو زیادہ تر وکٹیں بولڈ، ایل بی ڈبلیو یا وکٹ کے عقب میں کیچ سے ہی ملتی ہیں، جہاں تیز اور باؤنسی پچز ہوں وہاں وہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

البتہ شاہین شاہ آفریدی کو بھی اسکواڈ کا حصہ ہونا چاہیے تھا، ان کو سلیکٹر اظہر علی نے چار روزہ میچ کھیلنے کا کہا تھا، کسی وجہ سے شاہین ایسا نہ کر سکے تو سلیکٹر کی ایگو ہرٹ ہو گئی اور ٹیسٹ ٹیم سے ہی باہر کر دیا، بابر نے بھی ہدایت کے باوجود چار روزہ میچ نہیں کھیلا لیکن وہ ٹیم میں آ گئے۔

بنگلہ پریمیئرلیگ کیلیے شاہین کو این او سی دیتے ہوئے یہ باتیں اڑا دی گئیں کہ وہ خود ٹیسٹ نہیں کھیلنا چاہتے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے، شاہین بدستور تینوں طرز کی کرکٹ میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں۔

اب یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ اگر شاہین کو آرام کی ضرورت تھی تو بنگلہ دیش کیوں جانے دیا، ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ سابق کرکٹرز کو کوئی پوزیشن مل جائے تو وہ اونچی ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں۔

دن رات کے ساتھیوں کو بھی اکڑ دکھاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ یہ پوسٹ عارضی ہے کل کو پھر خالی بیٹھنا پڑے گا،موجودہ سلیکشن کمیٹی کے بعض ارکان سے اسی لیے بعض سابق ساتھی کرکٹرز ناراض  ہیں، پھر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر شاہین کو نہیں لیا تو سنچورین میں میر حمزہ کو کیوں نہیں کھلایا؟ایک لیفٹ آرم پیسر کو تو ساتھ رکھتے۔

بابر اعظم نے 2 سال بعد پہلی ففٹی بنائی، اب ان سے مزید اچھی کارکردگی کی توقعات ہیں، ہر گذرتے دن کے ساتھ شان مسعود بھی بطور کپتان میچور ہونے لگے ہیں،انھیں ساتھیوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

اس بار بھی پاکستان آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل سے دور رہا لیکن اگر ایسی کارکردگی جاری رہی تو اگلے دورانیے میں منزل حاصل ہو سکتی ہے،محسن نقوی نے پلیئرز پاور ختم کر کے ملکی کرکٹ پر بہت بڑا احسان کیا،اس کے بعد ہی نئے کھلاڑیوں کو مواقع ملے جو ٹیم کے کام آ رہے ہیں۔

البتہ ابھی انھیں مزید کام کرنے ہیں ، ڈومیسٹک کرکٹ میں بہت بہتری درکار ہے،چیمپئنز کپ سے کتنا نیا ٹیلنٹ سامنے آیا مینٹورز سے یہ پوچھنا چاہیے، پی ایس ایل پر بھی چیئرمین کو خود توجہ دینا ہوگی، بورڈ کے کئی شعبوں میں بہتری درکار ہے وہاں اہل افراد کو لائیں،پاور ملی ہے تو اسے کرکٹ میں بھی مکمل استعمال کر کے معاملات کو درست کر دیں۔

قومی ٹیم کی فائٹنگ اسپرٹ قابل دید ہے اسے برقرار رکھنا چاہیے، میچ جیتنے کیلیے فائٹ کرنا اہم ہوتا ہے، مگر کھلاڑیوں کو حریف سے میدان میں لڑنا چاہیے آپس میں نہیں،کپتانی کیلیے فائٹ کا فائدہ نہیں نقصان ہی تھا،شاید اب پلیئرز بھی یہ بات سمجھ گئے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں