اسلامی جمہوریہ، جنت نظیر، جوہری طاقت، قدرتی وسائل سے مالا مال، غیر معمولی محل وقوع اور کئی مزید بے شمار سابقوں لاحقوں کے حامل ہمارے ملک پاکستان میں اس وقت جاری بدترین اندازِ سیاست اور نفرت تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔
ملکی معاملات سے متعلق حالات پر بات کی جائے تو موجودہ حکومت، اس کے اتحادی اور پی ٹی آئی و اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے درمیان جاری نورا کشتی عوام خصوصاً نوجوانوں میں نہ صرف مایوسی پیدا کررہی ہے بلکہ انہیں ملک کے نظام سے متنفر کرتے ہوئے پاکستان چھوڑنے اور وطن کی خدمت سے بے پروا ہونے کی جانب رغبت دلا رہی ہے۔
پاکستان کی سیاست ہمیشہ ہی سے پیچیدہ اور کئی تنازعات سے بھرپور رہی ہے۔ ملک میں جمہوری حکومتوں کا قیام اور پھر ان کا خاتمہ اکثر سازشوں، اندرونی یا بیرونی مداخلتوں اور غیر جمہوری رویوں کے سبب ہوا ہے۔
گزشتہ چند برس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے عوام میں مقبولیت حاصل کی، خاص طور پر نوجوانوں اور متوسط طبقے میں، جس کے نتیجے میں 2018ء کے انتخابات میں اس جماعت کی حکومت قائم ہوئی، لیکن اس کے بعد ملک میں جہاں عوام کے بنیادی مسئلے مہنگائی سمیت دیگر مسائل نے جنم لیا وہیں ملک سیاسی استحکام سے بھی دور ہوتا چلا گیا اور بالآخر پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ہوا، جس کی وجوہات سے متعلق اندرونی اور بیرونی دونوں مداخلتوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کا اقتدار ختم ہونے کے بعد جو حکومت وجود میں آئی، وہی اتحاد اب تک قائم ہے، تاہم اس جانب کے چہرے دوسری طرف چلے گئے اور دوسری طرف کے چہرے اس جانب آ گئے اور رساکشی جوں کی توں جاری ہے۔
تحریک انصاف اور موجودہ حکومتی اتحاد کے درمیان جاری تنازع نے ملکی سیاست کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد مسلسل یہ بیانیہ پیش کیا کہ ان کی حکومت کو سازش کے ذریعے ہٹایا گیا۔ دوسری طرف حکومتی اتحاد نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو رد کرتے ہوئے ان پر معیشت کی تباہی، کرپشن سمیت کئی دیگر سنگین الزامات عائد کیے۔ فریقین کے مابین الزام تراشی کا یہ سلسلہ سیاسی مباحثے کا رُخ مزید تلخی اور سختی کی جانب موڑ چکا ہے۔
سیاست میں دونوں طرف سے جاری ضد صرف ایوانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اثر عوامی سطح پر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے لے کر عوامی اجتماعات تک، ہر جگہ ایک دوسرے کے خلاف شدید نفرت انگیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف سیاسی ماحول کو متاثر کر رہی ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی کے لیے بھی شدید نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے، جس کا خمیازہ مجموعی طور پر ہم بہ حیثیت قوم بھگت رہے ہیں۔
سیاست میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت نے ملک میں سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہوئے اسے سماجی اور باہمی روابط پر بھی اثرانداز کردیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حمایتی اب دلائل کی بنیاد پر بحث کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف ذاتی حملوں ، بدتمیزی اور غیر اخلاقی و غیر قانونی حدوں پر اتر آتے ہیں۔ اس رویے نے معاشرتی روابط اور اقدار کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
یہ نفرت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب سیاسی رہنما اپنے بیانات میں اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان منفی بیانات کے نتیجے میں عوامی جذبات بھڑکتے ہیں، ذہن سازی ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ جذبات پُرتشدد مظاہروں اور انتشار کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ حالیہ واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اختلافات کے باعث کئی شہروں میں بے امنی پھیلی، جس نے کاروبار، تعلیم سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
ملک میں جاری سیاسی بحران اور اس سے جُڑے مسائل نے عوام کو شدید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے۔ لوگوں کا سیاست دانوں پر اعتماد کم ہو چکا ہے، کیوں کہ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے مسائل کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور سیاست دانوں میں صرف اقتدار کی جنگ جاری ہے۔
عوام میں پیدا ہونے والی یہ مایوسی خاص طور پر نوجوانوں میں زیادہ ہے جو ملک کا مستقبل ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کے مواقع کی کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث پریشان ہیں۔ ان کی مایوسی کا نتیجہ یا تو ملک چھوڑنے کی خواہش اور کوشش کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر وہ سیاسی نظام سے مکمل بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔
درج بالا تمام عوامل کے بدترین نتیجے کی صورت میں پاکستان کی معیشت اس وقت ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے۔ حکومت کے مہنگائی سنگل ڈیجیٹ پر لانے اور تمام اشاریوں کو مثبت دکھانے کے باوجود عام آدمی مہنگائی سے نالاں دکھائی دے رہا ہے۔ متوسط و نچلے طبقوں کے لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ روز مرہ کے بنیادی استعمال کی اشیا، کھانے پینے کا سامان، ادویہ، پیٹرول سمیت ہر چیز حکومتی دعووں کے باوجود عوام کی پہنچ سے باہر ہے، جس پر بجلی اور گیس کے بل جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، توانائی کا بحران بدستور جاری ہے، لوڈشیڈنگ اتنی ہے کہ مشینیں، کارخانے، گھر بار، سب کچھ تقریباً ٹھپ ہو چکا ہے حکومت کی غیر مستحکم پالیسیوں نے معیشت کو پہلے سے زیادہ مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں روز نئے ریکارڈز قائم ہو رہے ہیں جب کہ غریب محض دال روٹی کے چکر میں صبح سے شام کررہا ہے۔
ملک کو بحرانوں اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکومتی و اپوزیشن سب سیاست دانوں، فوج، عدلیہ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی مکالمے اور مفاہمت کی جانب آنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے ذاتی مفادات اور اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک کے مسائل کے حل پر بات کرنا ہوگی۔ پاکستان کی خاطر انا اور ضد کو قربان کرنا ہوگا۔
حکومت ایک جانب ٹیکس اصلاحات سمیت حکومتی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے دعوے تو کررہی ہے، مگر اسے ایسی عوام دوست پالیسیاں اپنانا ہوں گی، جن کے ذریعے سے مہنگائی پر عملاً قابو پایا جا سکے، ملک میں صنعت کا پہیہ چلے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ ریلیف کے اعداد و شمار کاغذوں اور اعلانات کے بجائے مؤثر شکل میں عوام خود محسوس کریں تو اسے سہولت سمجھا جائے گا، بصورت دیگر یہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
خدارا اس بات کو محسوس کیجے کہ قوم تبدیلی کی ایسی صورت دیکھنے کی منتظر ہے، جس کے اثرات اُن کی شخصیت، کاروبار اور معاشرے پر نظر آئیں۔ ایسی تبدیلی، جس کے نتیجے میں عوام خصوصاً نوجوان مطمئن، آزاد اور وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم لیے ہوئے دکھائی دیں۔
اس مقام تک پہنچنے کےلیے سب سے پہلے سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی، سیاسی رہنماؤں کو نفرت انگیز بیانات سے گریز کرنا ہوگا، عوام کو اتحاد کا پیغام دینا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا، تعلیمی اداروں، علما اور تمام مکاتبِ فکر کو اپنے طور پر اہم کردار ادا کرنا پڑے گا۔ دہائیوں کے حالات دیکھ کر مایوس ہونے والے نوجوانوں کو سیاسی و معاشی نظام کا حصہ بنانے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنی توانائی مثبت سرگرمیوں میں استعمال کرکے ملک و قوم کے لیے کارآمد ثابت ہوسکیں۔
پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اگر ہم سب بہ حیثیت قوم ان مسائل کا حل نکالنے میں ناکام رہے تو یہ نہ صرف ہماری سلامتی بلکہ معیشت و سماجی اقدار کےلیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ تقسیم کی موجودہ لکیر مزید گہری ہونے کے خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
یاد رکھیں کہ ہمارا دشمن مکار اور چوکنا ہے، جسے ناکام کرنے کے لیے ’’ایک ہونے‘‘ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔