2025ء: نئے سال کا سورج

ہماری زندگی محض ’عارضی کام‘ نہیں ہے


نازلی فیصل December 31, 2024
فوٹو : فائل

2024ء نے رخصتی کا بگل بجایا، تو سال کی آخری ہچکی و سسکی نے افق پر ڈوبتے ہوئے سورج کا وہ منظر دکھلایا، جو ڈوبتے ہوئے ’’لو، شجرِ عمر کا ایک پتا اور گرا!‘‘ کہتے ہوئے 2024ء کے پتے کو جھڑتے اور نئے سال کو آنے کی نوید دے رہا تھا، ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس اور لگ گئی۔

رات کی سیاہی صبح کی سفیدی سے ہم کلام ہوتی ہوئی، نئے سال 2025ء کو خوش آمدید کہتے ہوئے جو بانہیں پھیلائیں، تو گزرے برس کی یادوں پر پڑی چلمن نے لہرا کر احساس دلایا کہ جانے پچھلے سال کتنے چراغ گل ہوئے۔ کیسے کیسے دل کے خزانے لٹے۔ کیسے کیسے چہرے خواب ہوئے۔ کتنی شکلیں مدہم ہوئیں۔ کتنے ہاتھ، ہاتھوں سے چُھٹ گئے۔ کیسے کیسے خواب ریزہ ریزہ ہوکر غبار راہ بنے۔ کون منزل تک پہنچ گیا، کون بیچ منجدھار رہ گیا۔ دنیا کے تناظر میں، غزہ کے سینے میں گھونپے ہوئے اسرائیل کے خنجر نے لہو رنگ غزہ کے وہ مناظر دکھلائے، جو آنکھوں ہی میں رہ گئے۔

جہاں بچوں کا قبرستان بنے غزہ میں ماؤں کی سسکیوں کے طوفان نے آزردہ کیا، وہیں سال گزشتہ کے قصۂ پارینہ بنے، حالات و واقعات پر کچھ لوگوں کو ان غموں و ناکامیوں پر آنسو بہاتے اور یہ کہتے سن کر دل بے چین ہوا اٹھا ’’ہم نے پچھلے سال کون سا تیر مار لیا، جو اس سال ماریں گے۔ جس طرح وہ سال گیا، یہ سال بھی پھسل جائے گا، ہاتھوں سے۔ ہم کون سا اس ایک لمحے میں سنور جائیں گے۔

’’بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارک بادیں… کیا سبھی بھول گئے وہ کڑوی یادیں!‘‘ یہ سن کر فوری قلم اٹھایا، مانا کہ پچھلے سال کچھ حادثات و صدمات ایسے تھے، جنھیں آپ کے لیے بھلانا ممکن نہیں۔ کچھ تلخ سے لمحات تھے، جنھیں سوچ کر آپ کے من نے سمیٹی ویرانی۔ پر اتنا تو سوچیں، سالوں کا یہ سفر یونھی نہیں جاری و ساری، یہ ہی تو ہماری زندگی کو رواں دواں رکھنے کا بہانہ ہے۔ بدلتے سالوں، بدلتے موسموں کی یہی تو کہانی ہے، جو وقت کا مرہم بن کر بڑے بڑے گھاؤ مندمل کر دیتی ہیں۔ پرانے زخموں کو بھرتے ہوئے، ہمیں جینا سکھاتی ہیں، ہر دکھ کا مداوا کرتے ہوئے وقت کے ساتھ چلاتی ہیں، آنسو پونچھتے ہوئے ہمیں یوں اٹھاتی ہے دلاسا دیتی ہیں۔

اس لیے خدا کا شکر ادا کریں۔ خدا نے جو ہمیں صحت کے ساتھ نئے سال کا سورج و چہرہ دکھلا رہا ہے، اس نے ہمارے کھڑے قدموں کو پھر سے چلایا ہے، وہ ہی ہمارے خوابوں میں رنگ بھی بھرے گا۔ یہ برسوں کا سفر اسی کی مرہون منت ہے، اس میں ہمارا کچھ عمل دخل نہیں۔ وہ جب چاہے، جیسے چاہے بدلتے سالوں کی طرح ہماری قسمت جگا دے، ہماری امیدوں کے گلزار کھلا دے، یہ سب اس کی حکمتوں کے فیصلے اور خدا کی خدائی کے وہ نشانات ہیں، جو نیا سال اپنی آغوش میں لیے ہمیں وہ منظر دکھلانے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے اور ہم خود بخود اس راستے پر چل نکلتے ہیں، وہ گوہرِ مقصود حاصل کر لیتے ہیں، جو خدا نے اس سال ہمارے لیے مقدر کیے ہیں۔

پھر ’’امید نو، کے اس سفر میں یہ ناامیدی، ویرانی و مایوسی کیسی؟ یہ بے چینی و ناشکری کیسی؟ جس طرح ہر رات کے بعد دن، ہر غم کے بعد خوشی، ہر دکھ کے بعد سکھ ہے، زندگی اسی تضاد کا مجموعہ اور غم و خوشی کی دھوپ چھاؤں ہے، خدا نے نیا سال دکھلا کر آپ کو کچھ کرنے کا ایک اور موقع دیا ہے، تو رو دھوکر اس کے اجالوں کو مت دھندلائیں، ہو سکتا ہے یہ سال آپ کی امیدوں سے بڑھ کر ثابت ہو ۔ ہار دینا نہ ہمت کہیں ایک سا وقت رہتا نہیں اس لیے خدا پر یقین و توکل کے ساتھ صدق دل سے دعاؤں کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہوئے نئے سال کا ہاتھ تھام لیجیے، جو ایک نئی امید بنا آپ کے ہاتھ تھامنے کے لیے بے قرار ہے۔ جو مبارک بادیں لیتے ہوئے، دیتے ہوئے ، گلے ملتے ہوئے نئے سفر کے لیے تیار کھڑا ہے۔

نئے سال کا آنا ’امید نو‘ جگا رہا ہے، ایک امید بہار ہے، جو نئے سورج کی نئی سویر کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ ایک اور سفر کی بات کرو، کہتے ہوئے ہمارا ہاتھ تھامتا ہے، پرانی ناکامیوں کے نقش مٹاتا ہوا، نئی کام یابیوں و نئی یادوں کے در کھولتا ہوا، زندگی کے پچھلے بھرے صفحات کو بند کرتا ہوا، نئے سال کے خالی صفحات میں رنگ بھرنے کے لیے آپ کو بھی کچھ نیا کرنے و بننے کی تلقین کرتا ہے۔

امید پر دنیا قائم ہے اور نیا سال امیدوں کا وہ جہاں، جو ہماری نئی اڑان، نئی پرواز، نئی سوچ لیے ہماری ہر امنگ و آرزو کو پورا کرنے کے لیے ہمارے ساتھ ہے۔ جیسے ہمیں پرانا کیلنڈر اتار کر نیا کیلنڈر آویزاں کر کے، وقت کے ساتھ چلنا و جینا سیکھنا ہے کہ اب بھی وقت ہے کچھ کرنا ہے تو کرلو جو سوچا ہے، پورا کرلو۔

’کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘ کچھ کرنے و بننے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے، اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے، یوں وہ نیا سال ہمارے لیے نئی امیدوں کا سفر ہے۔ نئے جذبوں و ہمتوں کا سفر ہے۔ ایک نئی روشنی اور آرزوؤں کی جلائی ہوئی جوت کا وہ سفر ہے، جو ہمارے مستقبل کی راہیں متعین کرتا ہے۔ نئے راستوں پر چلاتا ہوا نئی منزلوں کا نشان بن کر ہمارے قدموں کو دوڑاتا ہے۔ گزشتہ سال کی کارکردگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے پرانے منظر دکھلاتا ہے، پرانی کوتاہیوں کا احساس دلاتے ہوئے وہ سبق یاد دلاتا ہے، وہ سب جو ہماری راہ نمائی بھی ہیں ہمارے پل پل کی کہانی کی وہ روشنائی بھی ہیں، جو صحیح راستہ دکھاتے ہوئے ہمیں نئی منزل تک پہنچنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ ہمارے ہر لمحے کو کار آمد بناتے ہوئے پرانی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے، ایسے نہیں، بلکہ ایسے کرنا ہے، جیسے تیسے کرنا، لیکن مقصد حاصل کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹنا اور یوں نیا سال نئے عزم کی باگیں پکڑاتا ہوا، نئے سورج کے ساتھ نئی شاہ راہ پر چلنا، دوڑنا و بھاگنا سکھاتا ہے۔ زیست کی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرنے کے لیے نئی امیدیں باندھ کر نئے ولولے و جوش و خروش دے کر ہمیں رکنے نہیں دیتا۔ ٹھیرنے نہیں دیتا اور یوں کشاں کشاں ہمارے قدم منزل کی طرف بڑھاتے ہوئے ہماری منزل کو ہمارے سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔

چل کر تو دیکھو لگن کی منزل بھی مل ہی جائے گی ۔ پیاس اگر سچی ہو تو صحرا بھی چشمہ دیتا ہے نئی سویر کے اہتمام کے لیے ہمت و کوشش کا پیغام دیتا ہے۔

یہ سب نئے سال کی کارگزاریاں ہیں کہ ہم نئے سورج کے ساتھ نئی امیدیں لیے جی اٹھتے ہیں۔ یہ امید ہی تو ہے، جو آرزوؤں کے دیے روشن کرتی ہوئی، ہر پل ہر آن ایک نئی جستجو و کھوج لیے ہمیں رکنے نہیں دیتی اور یہ کہہ کر ہمیں پھر اٹھاتی ہے ’اے دل تجھے قسم ہے ہمت نہ ہارنا‘ کیوں کہ اگر ہم ہمت ہار بیٹھیں، ہمارے حوصلے ٹوٹ جائیں، ہمت صلب ہوجائے، تو پیچھے کچھ باقی نہیں بچتا۔ امید گرتے پڑتے قدموں میں جان ڈالتی ہے، راستے کے کانٹے چن کر منزل کو سہل و آسان کرتی ہے۔ نیا سال یہی پیغام بار بار دُہراتا ہے۔

’زندگی کی ٹوٹی ہوئی دوڑ اگر جوڑنی اور الجھی ہوئی ڈور اگر سلجھانی ہے، تو حوصلوں کو شکست خوردہ نہ ہونے دیجیے۔ حوصلے پَس پا ہوجائیں، تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو دوبارہ کھڑا نہیں کرسکتی، ناکامیوں و غموں کے کوہِ گراں تلے دبے کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی، کسی کا بڑھا ہوا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا، یہ صرف آپ کے اندر کی آواز، حوصلہ، عزم و خدا پر یقین ہے جو آپ کو کھڑا کرتا ہے، زندگی کے جھولتے ہوئے پینڈولم کو رکنے نہیں دیتا۔ اس لیے کبھی یہ کہہ کر ہاتھ پاؤں مت چھوڑ دیجیے کہ میں کچھ نہیں کرسکتی، یہ میرے نصیب میں نہیں۔ قسمت کو دوش دیتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا نہ رہیے۔

دنیا کے اس کارخانے میں کوئی بھی چیز نکمی نہیں، پھر بھلا اتنے قیمتی احساسات و جذبات و افکار رکھنے والا زمین وآسمان زیر کرنے والا انسان معمولی کیسے ہوسکتا ہے؟ اپنی غیر معمولی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے وقت میں جان ڈالیں اور آنے والے سال کو کار آمد بناتے ہوئے گزاریں، گزرے ہوئے سالوں کا یہی پیغام ہے، وقت کا تیزی سے بہتا ہوا دھارا سالوں کا سفر طے کرتا ہوا یہی بتلاتا ہے کہ یہ تو زندگی کا وہ سفر ہے جیسے طے کرتے ہوئے ہم عمر کی کتنی منزلیں پھلانگ جاتے ہیں۔

نئے سالوں کے ملنے بچھڑنے میں نئی امید لیے کہاں سے کہاں پہنچ گئے آنکھ کھلتی ہے، تو دیکھتے ہیں، وہ جو ہم کبھی عمر کی سنہری دھوپ تھے اب وقت کی ڈھلتی شام بن گئے۔ بالوں میں چاندی کے تار دیکھ کر احساس ہوا کہ سال صرف ہمیں یادوں کی گھٹری ہی نہیں، امید نو کا پیغام دیتے ہوئے ہم سے عمر عزیز کے قیمتی لمحے بھی چھین کر لے گئے، جانے آگے کتنا سفر باقی ہے کتنی سانسیں باقی ہیں۔ اس لیے جو کچھ کرنا ہے، اسی سال، بلکہ آج ہی کر ڈالو، کل کس نے دیکھا۔ کب یہ سانسوں کی ڈور ٹوٹ کر زندگی کا سفر تمام کردے!

عمر کی نقدی ختم ہونے پر کہیں بھی ادھار نہیں ملتا، کوئی ساہو کار نہیں ملتا جو چند سانس بھی قرض دے دے، وقت سب کو ملتا ہے، زندگی بدلنے کے لیے، لیکن زندگی دوبارہ نہیں ملتی، وقت بدلنے کے لیے اس لیے وقت کے گرد و غبار نے جو تجربات کا نچوڑ دیا، اپنی شخصیات کے تمام رنگ اپنے قلم، اپنے برش اپنے سروں سے وقت کے رات میں سمو دو۔ کچھ ایسا کر جاؤ، کچھ ایسا بن جاؤ کہ سالوں کا یہ سفر رائیگاں نہ جائے، زندگی کا پڑاؤ، محض ’عارضی کام‘ نہیں بلکہ آپ کے نقشِ دوام کو نئے حیات جاوداں دینے کی صدا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔