گھر عورت کی بہترین پناہ گاہ۔۔۔؟

گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے اقدام کرنا ہوں گے


خوشبو غوری December 31, 2024
فوٹو : فائل

بچپن سے اپنے گھر کی خواتین اور بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں کہ عورت کے لیے سب سے محفوظ گہ اس کا گھر ہے۔ بچوں کو بھی بچپن سے یہ ہی سمجھایا اتا ہے کہ گھر سب سے محفوظ گھر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر کا تصور ہی انسان کو پُرسکون ماحول، تحفظ اور محبت کا احساس دلاتا ہے، لیکن گھر جو عمومی طور پر سکون اور تحفظ کی جگہ سمجھا جاتا ہے، بہت سی خواتین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک مقام ثابت ہوتا ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گھر کی چار دیواری کے اندر ہی بہت سی خواتین کو جسمانی، ذہنی اور جذباتی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد اور استحصال کے سب سے زیادہ واقعات ان کے اپنے گھروں میں پیش آتے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ  خواتین کے لیے ان کا گھر ہی سب سے ’خطرناک جگہ‘ ہے۔

ایک سال کے اعدادوشمار کے مطابق 85 ہزار خواتین کو مردوں نے دانستہ طور پر قتل کیا۔ جن میں سے 60 فی صد خواتین اپنے ساتھی یا خاندان ہی کے کسی فرد کے ہاتھوں ماری گئی تھیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ہر جگہ خواتین اور لڑکیاں صنفی بنیاد پر تشدد کی اس انتہائی شکل سے متاثر ہو رہی ہیں اور کوئی خطہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نجی اور گھریلو زندگی میں جہاں خواتین کو سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہیے، وہیں وہ جان لیوا تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ دنیا بھر میں روزانہ تقریبا 140 خواتین اور لڑکیاں اپنے شریک حیات یا خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں ہلاک ہو رہی ہیں۔

یہی نہیں، بلکہ مذکورہ رپورٹ کے اعداد و شمار تو صرف ایک جھلک ہیں کیوں کہ تمام خواتین کی ہلاکتوں کو ریکارڈ نہیں کیا جاتا اور تمام اموات کو درست طور پر قتلِ نسواں کے طور پر درج بھی نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ پھر بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پر معلومات تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوتی۔

خواتین کے خلاف گھریلو تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے، جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر خاندانی مسئلے کے طور پر دبایا جاتا ہے۔ اس تشدد میں جسمانی تشدد، بدزبانی، گالیاں، جذباتی استحصال، نفسیاتی دباؤ، مالی تنگی اور بعض اوقات جنسی تشدد بھی شامل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، ایسے واقعات میں ملوث افراد زیادہ تر خود خواتین کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، جن پر وہ سب سے زیادہ اعتماد کرتی ہیں۔ شوہر، بھائی، والدین یا دیگر خاندان کے افراد اکثر خواتین کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ گھروں میں تشدد کا شکار خواتین کو ان کے اپنے ہی گھر کے مرد جسمانی، ذہنی، اور جذباتی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔ اکثر یہ تشدد قریبی رشتہ داروں جیسے شوہر، بھائی، یا والدین کے ہاتھوں بھی ہوتا ہے، جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے، کیوں کہ ان افراد پر خواتین کو سب سے زیادہ بھروسا ہوتا ہے اور دوسری جانب ان مردوں کو اپنی عورتوں تک بہ آسانی رسائی حاصل ہوتی ہے۔

اگرچہ بہت سے ممالک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن گھریلو تشدد کے واقعات میں اکثر ان قوانین کا اطلاق کمزور ہوتا ہے۔

پاکستان یسے ملک میں خواتین کے لیے قانونی مدد حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ سماجی دباؤ، مالی مسائل اور قانونی پیچیدگیاں ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان حالات میں خواتین خود کو تنہا اور مجبور محسوس کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے گھروں میں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔

پاکستان سمیت بہت سے معاشروں میں مردوں کو عورتوں پر کنٹرول اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو تو  گھر کی چار دیواری میں رہنا سکھایا جاتا ہے لیکن مرد کو چادر اور چار دیورای کی عزت اور حرمت سے آگاہی نہیں دی جاتی۔ اگر عورت اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں، تو انھیں اکثر سماجی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کو گھریلو تشدد کا شکار ہونے کے باوجود خاموش رہنا پڑتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں عورتوں اور بچوں پر کیے جانے والے گھریلو تشدد کو روایات اور معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اسے ’خاندانی معاملات‘ کا حصہ سمجھ کر بات نہیں کی جاتی۔ عورتوں پر یہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی ’عزت‘ کو بچانے کے لیے ایسے مسائل کو برداشت کرلیں اور کسی سے بھی اس کی شکایت نہ کریں۔ اس دباؤ کی وجہ سے خواتین خود کو گھروں میں بھی غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، لیکن کسی سے مدد لینے میں ہچکچاتی ہیں۔

پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین اکثر مالی طور پر اپنے شوہر یا خاندان پر انحصار کرتی ہیں۔ ان کے پاس معاشی خودمختاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ گھروں میں غیر محفوظ رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ مالی خودمختاری کی کمی خواتین کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور گھریلو تشدد کے خلاف قدم اٹھانے سے روکتی ہے۔

گھر کے اندر ہونے والا تشدد خواتین کی ذہنی صحت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایسے واقعات کی وجہ سے خواتین میں خود اعتمادی کی کمی، ڈپریشن، اور ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ مستقل خوف اور دباؤ کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے خواتین اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کھو دیتی ہیں۔

خواتین کو گھر میں محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی لائی جائے اور گھریلو تشدد کے حوالے سے شعور بیدار کیا جائے۔ خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جائے اور انھیں مالی اور قانونی مدد فراہم کی جائے۔ قانونی اصلاحات کو مؤثر بنانا اور ان کا درست اطلاق کرنا بھی اہم ہے تاکہ خواتین کو تحفظ مل سکے۔

بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی اگر عورت گھر میں ہی محفوظ نہیں، تو معاشرے میں وہ خود کو کیسے مضبوط بنائے اور دنیا کے کس کونے میں خود کو محفوظ سمجھے؟ خواتین کو خودمختار بنانے کے لیے مردوں کی بھی تربیت کی جائے، نفسیاتی اور عمرانی طور پر ان کی تربیت کی جائے، ان وجوہ کا خاتمہ کیا جائے جو اس بیمار اور دقیانوسیت اور وحشت کی طرف لے جاتی ہے، اس کے ساتھ خواتین کو بھی تعلیم اور بہتر معاشی مواقع فراہم ہونا اور  گھریلو تشدد کے بارے میں آگاہی پھیلانی اور اس کی روک تھام کرنا بھی ضروری ہے۔

گھر کو ہمیشہ محفوظ مقام تصور کیا جاتا رہا ہے، لیکن خواتین کے لیے یہی گھر سب سے زیادہ غیر محفوظ جگہ بن سکتا ہے۔ گھریلو تشدد اور استحصال کے بڑھتے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ خواتین کو اپنے گھروں میں بھی تحفظ فراہم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی رویوں کی تبدیلی، قانونی تحفظ، اور خواتین کی خودمختاری کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ خواتین کو ان کے گھروں میں محفوظ بنایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں