ظاہری شان وشوکت اور مالی مرتبے سے مرعوب ہونے کی سوچ یوں تو ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن اب اس میں پہلے سے کہیں زیادہ شدت آچکی ہے۔
بالخصوص اکثر لڑکیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اب یہ سوچتی ہیں کہ زندگی میں صرف پیسہ ہی ان کی خوشیوں کی ضمانت ہوتا ہے۔
جب وہ کسی لڑکے کے پاس دولت کی ریل پیل دیکھتی ہیں، تو یہی سوچتی ہیں کہ اس کی زندگی میں آنے والی لڑکی کی زندگی پھولوں کی سیج پر بسر ہوگی، مگر کیا کوئی لڑکی کبھی یہ سوچتی ہے کہ پیسوں سے اچھے کپڑے، فائیو اسٹار ہوٹل کا کھانا، عالی شان گھر تو خریدا جا سکتا ہے، مگر کسی کا ذہنی اور رومانوی ساتھ نہیں، اگر کسی لڑکے کے پاس دولت کی ریل پیل ہو، مگر وہ ذہنی پس ماندگی کا شکار ہو اور بیوی کو پیر کی جوتی سمجھتا ہو، تو ایسی ذہنی شخصیت کے حامل شخص کے ساتھ کے بعد بھی آپ سمجھتی ہیں کہ وہ لڑکی خوش قسمت ہوگی، جو اس کی زندگی میں شامل ہوگی؟ یقیناً نہیں کیوں کہ اس لڑکی کے درد و تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا، سوائے اس کی اپنی ذات کے جو دن رات گھر کی چار دیواری میں رہ کر شوہر کے حاکمانہ مزاج کو برداشت کرتی ہے۔
کوئی بیاہ کر امریکا جا رہاہے تو ہماری بن بیاہی بچیاں اس پر رشک کرتی ہیں، اور جو یہیں بیاہی گئی ہیں، وہ افسوس کرتی ہیں کہ جانے ان کے نصیب میں کیا کمی رہ گئی۔باہر جانا بھی بہت سی لڑکیوں کا خواب ہوتا ہے، وہ چوں کہ باہر جانے والی لڑکیوں کی زندگی کے مسائل سے واقف نہیں ہوتیں، اس لیے انھیں دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں، باہر رہ کر کٹھن زندگی یا شریک حیات کا ناروا سلوک بہت سی لڑکیوں کی زندگی کو دوزخ بنا دیتا ہے اور ان باتوں کو وہ دنیا کے سامنے بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہیں صرف والدین ہوتے ہیں۔
جن کے سامنے وہ اپنے لب کھولتی ہیں اور جب ان کی جانب سے ساتھ کی یقین دہائی کرائی جاتی ہے، تو ان کی جان امان میں آتی ہے۔ کسی کے گھر والوں کا اس مشکل میں ساتھ کھڑا ہونا بھی ایک طرح کی ’خوش قسمتی‘ ہی ہوتا ہے، کیونکہ یہاں وہ لڑکیاں بھی ہوتی ہیں جو سسرال کی دن رات خدمت کرتی ہیں پھر بھی انھیں یہ سننے کو ملتا ہے تم کرتی ہی کیا ہو؟ وہ فلانے کی بہو ہے۔
وہ اکیلے پورے خاندان کی دعوت سنبھال لیتی ہے، مگر بات وہی ہے جو آنکھیں دیکھتی ہے ہم بس اسی پر اش اش کرلیتے ہیں، حقیقتوں کے اوپر پردے پڑ جاتے ہیں، کیا ہی بات ہو جب انسان اس ظاہری روپ کے پیچھے حقیقی چہرے کو دیکھنے کی بھی کوشش کرے، جسے دیکھنا مشکل سہی، مگر ناممکن نہیں!