پشاور:
حال ہی میں خیبرپختون خوا کے صوبائی دارالحکومت پشاورمیں ایک منفرد قسم کی تقریب منعقد ہوئی۔
یہ منفرد اس لحاظ سے رہی کہ اس پروقار تقریب میں ایک، دو نہیں بلکہ 9 کتابوں کی رونمائی کا فریضہ انجام دیا گیا اور وہ بھی خواتین مصنفین کا، اس لیے ماضی قریب کے تناظرمیں اس کو ایک یہ انفرادیت حاصل ہوئی کہ اس سے قبل خواتین مصنفین کی اتنی تعداد میں کتابوں کی رونمائی کی تقریب وقوع پذیرنہیں ہوئی تھی اور وہ بھی ایک ایسے صوبے میں جہاں خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں آٹے میں نمک کے برابر نظر آتی ہیں، اس بنا پر اس واقعے کو ایک مثبت اورامید افزا واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
’بے نظیر بھٹو ویمن یونی ورسٹی‘ پشاور میں دوسرے دوستی لیٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ہوا، جس کے چوتھے دن ’کاروان حوا لٹریری فورم‘ کی ارکان کی ہندکو، پشتو اور اردومیں لکھی گئی 9 کتابوں کا تعارف پیش ہوا، جس میں محترمہ بشریٰ فرخ کے اردو نعتیہ مجموعے ’’غبارِ کوئے اور بودم‘‘ پر بے نظیر بھٹو ویمن یونی ورسٹی کی شعبہ اردوکی صدر محترمہ بسمینہ سراج اور ہندکونعتیہ مجموعے’’ جانانِ ما محمد‘‘ پر محترمہ شمشاد نازلی نے اپنے قیمتی تاثرات پیش کیے۔
محترمہ سیدہ عطیہ پروین کی اردو کتاب ’’آپ بیتی سچ مچ بیتی‘‘ پر محترمہ نیلوفر سمیع نے اور محترمہ نصرت نسیم کے زیارات کے سفر نامے ’’ کھلی آنکھوں کاخواب ‘‘ پر محترمہ شاہین جمیل نے اپنے خیالات کا اظہارکیا اور کہا کہ انھوں نے اپنی ان تصانیف میں عورت کی عظمت وعفت، عزت اور تکریم کو اجاگر کرتے ہوئے اس کوسماج میں پیش آنے والے رویّوں پر منظم انداز میں روشنی ڈالی ہے۔
اسی طرح محترمہ شاہین امین کے پشتو افسانوں کے مجموعے’’ تش لاسونہ‘‘ پر محترمہ ڈاکٹر روشن کلیم نے ثمینہ قادر کا لکھا ہوا مضمون پڑھا اور شاہین امین پرلکھی ہوئی اپنی نظم بھی سنائی، محترمہ ناز پروین کے اردو سفرنامے ’’شینجان کے خوش حال ویغور‘‘ پر محترمہ ثمینہ قادر نے اور تابندہ فرخ کے زیارات کے سفر نامے ’’صراطِ عشق‘‘ سفر شام، پرمحترمہ بشریٰ فرخ نے زریں خیالات کااظہار کیا، ڈاکٹر بسمینہ سراج کے اردومجموعے ’’ نقد وحرف‘‘ پرمحترمہ ڈاکٹر راحیلہ نے اپنے تاثرات پیش کیے۔
تقریب کے اختتام پر مہمان خصوصی ڈاکٹر گلزار جلال نے کہا کہ آج کی خواتین کا دائرہ عمل ان کے گھرکی چاردیواری ہو یا کھلی ہوئی دنیاکی بسیط فضا، دونوں ہی میں کام کرنے اورآگے بڑھنے کے لیے خود اعتمادی کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے اور اسے محنت، لگن، قابلیت سے جلا ملتی ہے، آج کی ہنگامہ خیز زندگی کا ہردن غیر متوقع سانحوں سے دوچارہوتا ہے، گھر ہو یا باہر حادثات ہونے میں دیرنہیں لگتی۔
بارہا خواتین کو تنِ تنہا ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، جس میں سب سے زیادہ اْن کی خود اعتمادی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے، عام طور پرشہر میں رہنے والی عورتیں پڑھی لکھی ہوتی ہیں، کام کرتے کرتے انھیں تجربہ بھی حاصل ہو جاتا ہے، ایسی عورتوں کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہونا فطری ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کا نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی استعمال بہتر انداز میں کر سکیں۔
’کاروان حوا‘ کی چیرپرسن محترمہ بشریٰ فرخ نے کہا کہ ویسے تو خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سی تنظیمیں خدمات انجام دے رہی ہیں اور ہر ایک کے کام کا طریقہ کار بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے، لیکن مقصد سبھی کا ایک ہی ہوتا ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق کے حوالے سے شعور و آگہی دی جائے یا ان کی کسی بھی مشکل میں راہ نمائی ومدد کی جا سکے۔ بشریٰ فرخ نے کہا خیبرپختون خوا کے قدامت پسند معاشرے میں عورت کی آواز باوقاراندازمیں پیش کر رہے ہیں اور چند ہی سال میں ہم افسانہ نگاروں، ناول نگاروں،کالم نگاروں اورشاعرات کا کارواں لے کر اپنی شناخت بنانے میں کام یاب ہوگئے اورخواتین شعرا کو صوبے کی سطح پرایک پلیٹ فارم مہیا کر دیا، یہ تنظیم ایسی لکھاری خواتین کو سامنے لے آئی۔
جو لکھ رہی تھیں اورایسی بھی جولکھ لکھ کر رکھ رہی تھیں، اس تنظیم نے ان لکھنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کر کے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا، تنظیم ہر اہم موقع پرادبی پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے، جب کہ ہر نئی آنے والی تصنیف خصوصاً خواتین لکھاریوں کی تصانیف کے لیے تقریبِ رونمائی کا انعقاد بہت جوش وخروش سے کرتی آئی ہے، یہ ادبی تقریبات خواتین کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہیں۔
پچھلے سال بھی مختلف مواقع پر کُل گیارہ کتب کی رونمائی کی گئی تھی، ہماری تنظیم نے پچھلے تین سال سے ایکسیلنس ایوارڈ کا آغاز کر دیا ہے، جو ہمارے مشاہیر رحمن بابا، خوش حال خان خٹک، احمد فراز، محسن احسان اور خاطر غزنوی جیسے بڑے ناموں پر دیے جاتے ہیں، اسی طرح ادبی رسالہ بھی شروع کیا گیا ہے، جس میں نئی خواتین لکھاریوں کو مواقع دیے جا رہے ہیں۔