شام کے عبوری رہنما احمد الشرع کا کہنا ہے کہ شام میں انتخابات کے انعقاد میں چار برس لگ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی ڈائیلاگ کانفرنس میں ہیئت التحریر شام کی تحلیل کا اعلان کریں گے۔
شام کی وزارت دفاع کرد فورسزکو اپنی صفوں میں ضم کرے گی۔ امید ہے ٹرمپ انتظامیہ شام پر سے پابندیاں اٹھا لے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شام کے روس کے ساتھ اسٹرٹیجک مفادات ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ روس شام سے تعلقات کو غیر موزوں طریقے سے چھوڑ دے۔
عبوری رہنما اور ایک عسکری تنظیم کے سربراہ کا مذکورہ بالا اعلان بلاشبہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا۔ سابق صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے اور ہیت التحریر الشام کے دمشق پر قابض ہونے کے بعد یہ اہم ترین سوال پیدا ہوا تھا کہ آیا کیا شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ اورکیا یہ امن مستقل طور پر برقرار رہے گا؟ اس سلسلے میں عالمی طاقتوں کی جانب سے بھی خدشات کا اظہارکیا جا رہا تھا،کیونکہ سابق حکومت کی اپوزیشن میں متعدد مسلح گروپ شامل ہیں۔
اس لیے شام میں امن کا بہت حد تک انحصار ہیت التحریر کے رہنما ابو محمد الجولانی پر ہوگا کہ وہ کس حد تک دیگرگروپوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ روز انھوں نے اعلان کیا ہے کہ انتخابات ہوں گے مگر انتخابات کے لیے پُرامن اور محفوظ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروپوں کو نیا آئین بھی تشکیل دینا پڑے گا جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ شام میں کون سا طرزِ حکومت (پارلیمانی، صدارتی یا ملا جلا) رائج کیا جائے گا۔ اس کے لیے نہ صرف وقت بلکہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے مصالحتی جذبہ اور طرزِ عمل بھی درکار ہوگا۔
آمریت خواہ کسی شکل میں ہو وہ عوام کے قلوب کو ہمیشہ کے لیے فتح نہیں کرسکتی۔ آپ دنیا کے مختلف خطوں میں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آمریت کی ظلم و زیادتی برداشت کرنے کی قوت جب جواب دینے لگتی ہے تو عوام کے قلوب میں دبی چنگاریاں شعلہ بن جاتی ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جب بیرونی اور اندرونی ذرایع سے پھر تعاون اورکمک بھی پہنچنے لگے تو آمریت کے مضبوط قلعے بھی عوامی بغاوت کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
ایران میں رضا شاہ پہلوی کی آمریت سے لے کر عراق تک اور لیبیا سے لے کر اب شام تک ایک طویل عرصے تک طاقت کا ایک ہی مرکز رہا لیکن اندر ہی اندر لاوا بھی پکتا رہا اور باغی قوتیں اسے ہوا دیتی رہیں۔ اسی طرح امریکا، روس، اسرائیل اور دیگر حامی ممالک اپنے اپنے حمایت یافتہ گروپوں کی نہ صرف یہ کہ سرپرستی کرتے رہے بلکہ مطلوبہ ’’کمک‘‘ بھی پہنچاتے رہے نتیجتاً عشروں پر محیط اقتدارکا خاتمہ ہوگیا۔آمر ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ داخلی بغاوت سے کیا ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آتا ہے؟ کیا باغی قوتیں اپنے سرپرستوں کی آشیرباد سے ملک کے طبقوں کو مطمئن کر کے مستحکم حکومت قائم کرسکتی ہیں؟ کیا ملک میں مکمل امن قائم ہو سکتا ہے؟ افسوس کہ ایسے سوالوں کا جواب ’ہاں‘ میں دینا آسان نہیں۔ ہمارے سامنے عراق اور لیبیا کی شکل میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آمریت کے خاتمے کے بعد بھی ملک میں انتشار، افراتفری اور عدم استحکام کی صورت حال جاری رہی۔
عوام کوکلی طور پر سکون نہ ملا۔ بجا کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اسد حکومت کے خاتمے کو شامیوں کے لیے ملک کی تعمیر نو کا ’’ تاریخی موقعہ ‘‘ قرار دیا ہے، نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسد حکومت کے خاتمے پر اطمینان کا اظہارکیا ہے جب کہ اسرائیل نے جولان کی پہاڑیوں پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے ہیں۔
شام کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اس کی سرحدیں پانچ اہم ممالک یعنی ترکیہ، عراق، لبنان، اردن اور اسرائیل سے ملتی ہیں۔ اس جغرافیائی محل وقوع کے نتیجے میں شام کے اندرونی اور بیرونی معاملات ان سب ملکوں کی دلچسپی کا باعث بن کر شام میں مداخلت کا جواز بن جاتے ہیں۔
اس وقت اسرائیل نے شام کے علاقے سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر کے اسے اپنا حصہ بنا لیا ہے، اس کے مشرقی حصے میں امریکی افواج موجود ہیں جب کہ ترکیہ کے ساتھ اس کے سرحد ی علاقے کے ایک وسیع حصے پر ترک افواج موجود ہیں۔ اس طرح نہ صرف شام کی آزادی اور خود مختاری بلکہ علاقائی سالمیت کو بھی خطرہ ہے۔ نئی حکومت کو حالات معمول پر لانے میں نہ صرف محنت کرنا پڑے گی بلکہ گزشتہ بارہ برس کی خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اس میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس طویل خانہ جنگی میں تین لاکھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور 56 لاکھ شامی باشندوں کو ہمسایہ ملک میں پناہ لینا پڑی ہے۔ ملک کے انفرا اسٹرکچر، شہروں کی عمارتوں، سڑکوں، پلوں اور سرکاری عمارتوں کی تباہی سے جو نقصان پہنچا وہ اس کے علاوہ ہے۔ شام اپنے وسائل سے ان نقصانات کی تلافی نہیں کر سکتا، اسے بین الاقوامی امداد پر انحصار کرنا پڑے گا۔
شام میں ہونے والی تبدیلیاں ہمیں بہت سے پہلوؤں پر غورکی دعوت دے رہی ہیں، جیسا کہ شام کے عبوری عسکری رہنما کے خیالات افغان طالبان کی عبوری حکومت کے کرتا دھرتا افراد کے لیے ایک سبق آموز نصیحت کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ اقوام عالم میں رہنے، سہنے اور اپنے ملک کے بیرونی ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے سفارتی آداب ہوتے ہیں جن پر عملدرآمد کرنا لازمی ہوتا ہے۔
شام کے عبوری رہنما نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے وہ عسکریت کی راہ چھوڑ کر جمہوریت کی راہ پر چلنے کا اعلان کرچکے ہیں جب کہ افغانستان کے طالبان عہد قدیم کی جاہلیت پر قائم کرنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں، وہ دو برس میں پوری دنیا سے کٹ چکے ہیں، جس کا ان کے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، افغان طالبان کی عبوری حکومت کو اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کرکے افغان عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر ایک ایسے نظام پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے جو ان کے روابط بیرونی دنیا سے بحال کرے، تاکہ انھیں بیرونی امداد مل سکے اور وہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے حالیہ اقدامات جن میں دمشق اور مشرقی شام کے علاقوں پر بمباری اور گولان کی مقبوضہ سطح مرتفع کے ساتھ واقع بفر زون میں اسرائیلی قبضہ شامل ہے، یوں شام کی نہ صرف آزادی بلکہ علاقائی سلامتی اور اندرونی استحکام کے لیے شدید خطرات ہیں۔
اس کے ساتھ امریکی سینٹرل کمانڈ کی طرف سے دمشق میں مبینہ طور پر داعش کے ٹھکانوں پر 75 فضائی حملے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔
داعش کی آڑ میں شام کے خلاف اسرائیل اور امریکی فوجی اقدامات کا مقصد شام کے سیاسی حالات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ شام تین کروڑ سے بھی کم آبادی اور تیل کی دولت سے محروم عرب دنیا کا ایک چھوٹا اور محدود آمدنی والا ملک ہے مگر اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب اسرائیل تنازع میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
شام کا سب سے زیادہ گنجان آباد اور اہم ترین علاقہ ہئیت التحریر کے پاس ہے جو ادلیب سے دمشق کے شمال تک پھیلا ہوا ہے۔ الیپو (حلب) حما، حمص وغیرہ کے شہر اسی میں ہیں اور اب تو انطاکیہ اور طرطوس بھی۔ مشرق میں ایک معقول رقبے پر امریکا قابض ہے۔ حمص اور حما کے مشرق میں، دیرالزور کے جنوب میں ایک وسیع رقبے پر داعش والے گھومتے ہیں دمشق اور جنوب میں الدرعا، السوویدا وغیرہ کا ایک محدود رقبہ ایک اور اتحاد کے پاس ہے جس میں تین چار جماعتیں ہیں۔ کردوں کے زیر قبضہ علاقے کا رقبہ وسیع ہے لیکن آبادی بہت کم۔ کوئی بڑا شہر نہیں ہے۔
حساقہ، الزمّہ، دیرانہ در شہر کم، قصبے زیادہ ہیں ۔ کردوں کی پارٹی کا نام ایس ڈی ایف (سیرین ڈیموکریٹک فرنٹ) ہے۔ اسے امریکا کی تائید اور سرپرستی حاصل ہے۔ یہ سب سے بڑا رقبہ ہے جو کسی گروہ کے پاس ہے۔ اس کے مغرب میں ترکی کے زیر قبضہ بفرزون کا رقبہ ہے جو سیرین نیشنل آرمی کے کنٹرول میں ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے فضائی تاریخ کے سب سے بڑا آپریشن کر کے ڈیڑھ سو مقامات پر لگ بھگ ساڑھے تین سو بمباریاں کی ہیں اور شامی فوج کا چھوڑا ہوا ہتھیار خانہ تباہ کر دیا ہے۔
ان میں روایتی جنگی مشینری کے علاوہ ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں اور ہتھیار سازی کے کارخانے بھی۔ بہرحال شمال میں خاصی مقدار میں ہتھیار انقلابیوں نے پہلے ہی قبضے میں لے کر کہیں اور منتقل کردیے تھے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا عالمی طاقتیں اسرائیل کو شام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جارحیت سے روک پاتی ہیں یا نہیں۔شام میں امن، استحکام اور تعمیر نو کا انحصار اس کے ہمسایہ ممالک کے علاوہ ایران، سعودی عرب، روس، امریکا اور اسرائیل کے رویے پر بھی ہوگا۔