نیا سال: فصلِ گل

دوسرے مسلم ملک شام میں اسد خاندان کی نصف صدی پر مشتمل حکمرانی کا خاتمہ ہے۔


ایم جے گوہر December 31, 2024

سال 2024کا سورج اپنے دامن میں قومی و عالمی سطح پر رونما ہونے والے مختلف النوع واقعات، حادثات، سانحات اور لوگوں کے دلوں میں ابھرتی ہوئی خواہشات و ناتمام حسرتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے مغرب کی اوٹ ڈوبنے کے قریب آ رہا ہے۔ نئے سال 2025 کا آفتاب نئی امیدوں، امنگوں، خواہشات، توقعات اور تازہ جذبوں، جوش و جنون اور امکانات کی کرنیں بکھیرتا مشرق سے طلوع ہونے والا ہے۔

گزشتہ سال عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات میں سب سے دلخراش و افسوسناک اسرائیل فلسطین جنگ میں شدت آنا ہے۔ اسرائیل کی بے گناہ و معصوم فلسطینیوں پر وحشت ناک بمباری کا سلسلہ گزرے برس میں بھی جاری رہا۔ اقوام متحدہ سمیت او آئی سی، عرب لیگ اور دنیا کے طاقتور ممالک بھی اسرائیلی بربریت کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں تادم تحریر ناکام رہے ہیں۔

45 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے اور معصوم فلسطینی اب تک شہید ہو چکے ہیں جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے شہری آبادیوں، اہم تنصیبات، اسکولوں اور اسپتالوں تک نشانہ بنایا۔ غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

عالمی برادری کی بے حسی، مسلم دنیا کی کمزوریوں اور مجرمانہ خامشی اور امریکی پشت پناہی نے نیتن یاہو کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کا موقع فراہم کیا ہے۔ جو انتہائی افسوس ناک طرز عمل ہے۔ 25 جنوری کو امریکی قیادت تبدیل ہو جائے گی، ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا منصب سنبھال لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ اسرائیل فلسطین جنگ بندی میں اپنا مصالحانہ کردار ادا کریں گے یا نیتن یاہو کی حوصلہ افزائی جاری رکھیں گے؟

2024 میں دو مسلم ممالک بنگلہ دیش اور شام میں برسوں سے اقتدار پر قابض حکمرانوں کو رسوائیوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد، جو شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی ہیں، گزشتہ 16 برس سے مسلسل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم چلی آ رہی تھیں۔

انھیں بھارتی حکومت کی اول دن سے سرپرستی حاصل رہی۔ تاہم اگست 2024 کو عوامی دباؤ کے تحت انھیں مستعفی ہو کر بنگلہ دیش سے جان بچا کر بھارت فرار ہونا پڑا۔ آج بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہے جو نئے انتخابات تک ملک کا نظم و نسق چلائے گی۔

دوسرے مسلم ملک شام میں اسد خاندان کی نصف صدی پر مشتمل حکمرانی کا خاتمہ ہے۔ بشارالاسد کو جو گزشتہ کئی سالوں سے اپنے حامی ممالک روس اور ایران کی مدد سے اپنے خلاف بغاوت کو کچلنے میں کامیاب رہے تھے، اس مرتبہ انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ باغیوں نے انھیں اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ نتیجتاً انھیں بھی حسینہ واجد کی طرح اپنے ملک سے فرار ہو کر روس میں سیاسی پناہ حاصل کرنا پڑی۔ بنگلہ دیش کی طرح شام میں بھی اس وقت عبوری حکومت قائم ہے جس کے سربراہ احمدالشرع ہیں جو نئے انتخابات تک ملک کا نظم و نسق چلانے کی ذمے داریاں نبھائیں گے۔

آج کا امریکا دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔ گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں غیر متوقع طور پر قاتلانہ حملوں، مقدمات اور سیاسی نفرتوں و انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخی فتح ہے۔ وہ 20 جنوری کو صدارت کا منصب سنبھالیں گے، اگرچہ پاک امریکا تعلقات کبھی بھی مثالی اور پراعتماد نہیں رہے تاہم جوبائیڈن دور میں پاک امریکا تعلقات میں کوئی نمایاں و غیر معمولی کشیدگی دیکھنے میں نہیں آئی۔

البتہ ان کے دور کے آخری دنوں میں بیلسٹک میزائل تیار کرنے والے چار اداروں پر پابندی اور امریکا کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائز کے اس بیان نے پاک امریکا تعلقات میں ایک ہلچل سی پیدا کر دی ہے کہ پاکستان ایسے میزائل تیار کر رہا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں میں جنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف یعنی امریکا تک کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکی فیصلے کو جانبدارانہ قرار دیا ہے جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ میزائل پروگرام کے سبب ہم پر عائد امریکی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی صاف طور پر کہا ہے کہ ہم اپنے ایٹمی اثاثوں اور میزائل پروگرام پر کسی قسم کی سودے بازی اور کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ 2025 میں پاک امریکا تعلقات میں خوش کن و مثبت تعلقات کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں جو یقینا حکمرانوں کے لیے پریشان کن صورت حال ہے۔

گزشتہ سال قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں رونما ہونے والے واقعات نے پورے ملک کو ایک اضطرابی کیفیت میں مبتلا رکھا۔ امن و امان سے لے کر سیاسی، عدالتی، حکومتی، معاشی اور عوامی مسائل کے حوالے سے دل کو مطمئن کرنے والی کوئی خبر سننے کو نہیں ملی۔ ملک کے دو اہم صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

پاک فوج کے بہادر جوان اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے جو بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں وہ بجا طور پر قابل فخر ہیں۔ دسمبر کے آخر ایام میں پاک افغان سرحدی کشیدگی میں اضافہ باعث تشویش ہے۔

پاکستان اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغان حکومت کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے اقدامات کرنے پر زور دے چکا ہے۔ اب یہ افغان حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ صورت حال کی نزاکت کا احساس کرے بصورت دیگر نتائج کی ذمے داری افغان حکومت پر عائد ہوگی۔

ہرچند کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر دیوالیہ ہوتی معیشت کی سانسیں بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے 2024 میں عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو نے درست کہا ہے کہ معاشی بہتری صرف کاغذ پر نظر آ رہی ہے، عوام کو اس کا فائدہ پہنچنا چاہیے۔

انھوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ (ن) لیگ کے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ وہ یکطرفہ اور متنازع فیصلے کرے، (ن) لیگ کی سیاست تو موٹروے سے شروع ہو کر میٹرو پر ختم ہو جاتی ہے۔ بلاول بھٹو نے شکوہ کیا کہ حکومت پی پی پی سے معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کر رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ (ن) لیگ اپنی سب سے اہم اتحادی جماعت پی پی پی کو معاہدہ کرنے کے باوجود مطمئن نہیں کر پا رہی ہے تو پی ٹی آئی سے مذاکرات اور کسی امکانی معاہدے کا مثبت نتیجہ کیوں کر نکل سکتا ہے؟ اسی باعث مبصرین و تجزیہ نگار حکومت پی ٹی آئی مذاکرات سے بہت زیادہ پرامید نہیں اور 2025 میں حکومت اپوزیشن کشیدگی میں بجائے کمی کے اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

امید انسان کو حوصلہ دیتی اور جینے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔ عوام سال گزشتہ سال کی تلخیوں کو بھلا کر نئے سال سے پرامید ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ 2025میں حکمران طبقہ اور اپوزیشن اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے عوامی اور قومی مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں گے تاکہ ملک میں امن و امان بحال ہو، معیشت مستحکم ہو، آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو، جمہوریت کا تسلسل قائم رہے اور وطن عزیز ترقی و خوش حالی کی منزل پر گامزن ہو۔ بقول شاعر:

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں