سیاسی مفادات عزت پر حاوی کیوں؟

سیاسی مفادات کے اصول کو ترجیح اور اہمیت دینے کا نیا سلسلہ صرف بانی پی ٹی آئی نے شروع کیا


محمد سعید آرائیں December 31, 2024
[email protected]

سیاست پہلے عزت و احترام، عوام کی خدمت کے لیے ہوتی تھی جس میں بعد میں انتخابات لڑنا انتہائی مہنگا ہو جانے کی وجہ سے کرپشن کرنا مجبوری بن گئی جس کی وجہ سے شرفا سیاست سے دور ہوتے گئے اور جو لوگ کروڑوں روپے الیکشن میں خرچ کرکے اسمبلیوں میں جانے کی مالی طاقت رکھتے تھے وہ سیاست کا ضروری حصہ بن گئے بلکہ وراثتی سیاست بھی عروج پاتی رہی جس کے نتیجے میں غریب تو دور کی بات متوسط طبقہ بھی بلدیاتی الیکشن لڑنے کے بھی قابل نہ رہا جس کا واضح ثبوت پنجاب میں 2015 کے بلدیاتی انتخابات تھے جو سپریم کورٹ کے حکم پر ملک بھر میں منعقد ہوئے تھے اور پنجاب میں کروڑوں روپے خرچ کرکے بلدیاتی یوسی سربراہ بننے کا نیا ریکارڈ قائم ہوا تھا۔

بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی نرسری دنیا بھر میں قرار دیے جاتے ہیں اور بلدیاتی اداروں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے متعدد ممالک میں اعلیٰ ترین عہدوں تک بھی پہنچے جس کی مثال مسلمان ممالک میں ایران اور ترکیہ ہیں اور پاکستان میں بھی بعض بلدیاتی اداروں کے ایسے عہدیدار بھی موجود ہیں جنھوں نے اپنی سیاست کی ابتدا بلدیاتی اداروں میں سربراہ منتخب ہو کر عوام کی خدمت کی اور اعلیٰ حکومتی عہدوں تک پہنچے۔

پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں بلدیاتی ادارے فوجی حکومتوں میں پروان چڑھے اور ایک دو بلدیاتی الیکشن نام نہاد جمہوری حکومتوں نے کرائے جب کہ جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کے طویل عرصوں کیغیر سول حکومتوں میں سب سے زیادہ بلدیاتی انتخابات ہوئے اور ملک کو نئی سیاسی قیادت میسر آئی۔

بلدیاتی انتخابات چھوٹے چھوٹے حلقوں میں ہوتے ہیں جن میں اخراجات بھی کم ہوتے ہیں اور بلدیاتی امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں رہنے والوں سے مل کر اپنی انتخابی مہم چلاتے تھے اور ان کا اپنے حلقے کے لوگوں سے نہ صرف قریبی رابطہ رہتا ہے بلکہ حلقے کے ہر شخص کو اپنے یوسی سربراہ سے ملنے میں آسانی رہتی ہے کیونکہ وہ اسی حلقے کے رہنے والے ہوتے ہیں اور لوگ عزت کے لیے بلدیاتی عہدوں پر الیکشن لڑتے ہیں اور اپنے حلقے والوں کی بے لوث خدمت کرتے ہیں اور سیاسی مفادات ان کی بھی ترجیح ہوتے ہیں مگر وہ اپنی عزت کو اہمیت دیتے ہیں۔

جنرل پرویز نے پہلی بار حکومت کو جو بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام دیا تھا اس میں ناظمین کو مالی و انتظامی اختیارات اور اہمیت ملی تھی جس سے بلدیاتی الیکشن لڑنا بھی مہنگا ہوا تھا اور بلدیاتی انتخابات میں اخراجات بڑھے جس سے بلاشبہ کرپشن بھی بڑھی مگر عزت پر ترجیح نہیں ہوتی تھی۔

ملک میں اسمبلیوں کے انتخابات میں بھاری انتخابی اخراجات کے باعث امیر لوگ یا سیاسی پارٹیاں ہی حصہ لیتی آ رہی ہیں۔ پارٹی ٹکٹ اہمیت کے حامل ہو جانے سے اکثرکروڑوں روپے دے کر ملتے ہیں جب کہ آزاد امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرکے ووٹ خرید کر، ووٹروں کو کھانے کھلا کر، مہنگی پبلسٹی سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور ان کی ترجیح عزت ہوتی ہے مگر کرپشن کا موقعہ وہ بھی نہیں چھوڑتے کیونکہ انتخابی اخراجات نکالنا اب ان کی بھی مجبوری ہے اور سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹوں پر ان کے انتخابی اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور ووٹ بینک رکھنے والے اب بھی آزادانہ الیکشن لڑنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

 ملکی پارٹیوں کے سربراہ سیاسی اصول ترک کر چکے ہیں اور ان کی ترجیح اب عزت، غیرت نہیں رہی بلکہ سیاسی مفادات ہیں اور وہ مخالفین کا ماضی بھی بھول جاتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ امیدوار کی مالی حیثیت اور ووٹ بینک کتنا ہے۔

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی کا ٹکٹ مانگنے یا ان کی اب حمایت کرنے والا ماضی میں ان کا کتنا شدید مخالف رہا ہے۔ اب وہ کوئی اصول دیکھتے ہیں نہ اپنی عزت۔ سب کچھ بھول کر اس کو اس لیے گلے لگا لیتے ہیں کہ وہ بھی اب ان کے سیاسی مخالف کا سیاسی اور ذاتی مخالف ہے۔

ملک کی سیاست میں عزت و احترام نظرانداز اور پامال کرکے صرف سیاسی مفادات کے اصول کو ترجیح اور اہمیت دینے کا نیا سلسلہ صرف بانی پی ٹی آئی نے شروع کیا جن کے علاوہ کوئی سیاسی قائد ایسا نہیں ہے جس کو ماضی میں ان کے شدید سیاسی مخالفین نے ذاتی تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔

ماضی میں چند لوگ ہی ایسے ہیں جنھوں نے پی ٹی آئی کے بجائے اس کے بانی پر ذاتی حملے کیے اور بانی پی ٹی آئی بھی واحد پارٹی رہنما ہیں جنھوں نے جن افراد کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ڈاکو تک قرار دیا پھر ان افراد کو اہم عہدے بھی دیے جو الگ پارٹیوں کے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے دو شدید مخالف رہنماؤں کے نام بگاڑے اور بعد میں انھیں اپنی حکومت میں اہم عہدے صرف سیاسی مفادات کے لیے ہی دیے تھے جس کے بعد سے اصول و عزت کے بجائے سیاسی مفادات حاوی ہوتے رہے جس کے نتیجے میں سیاست گالی بن کر رہ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں