دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

سادہ زندگی اور بلند خیالات انسان کی زندگی کا جوہر تھا۔


شکیل فاروقی December 31, 2024
[email protected]

اسیر پنج عہد شباب کر کے مجھے

کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

 بچپن کا زمانہ یاد آتا ہے تو مضطر خیر آبادی کا یہ شعر دماغ پر دستک دیتا ہے۔ بچپن کی کیا خوبصورت منظرکشی کی گئی ہے ۔وہ بھی کیا دن تھے ‘جب پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے کے علاوہ کوئی اور مصروفیت تھی اور نہ کوئی غم و فکر۔ روز و شب آرام ‘کھیل کود اورقہقہے لگانے سے گزرتے تھے۔

اس زمانے میںفضااور پانی میں کسی قسم کی کوئی آلودگی نہیں تھی اور نہ کوئی شور شرابا۔شام ڈھلے سب لوگ گھروں میںہوتے تھے‘مغرب تک رات کاکھانا کھا لیا جاتا تھااور پھر رات کو سکون کی نیند سوتے تھے اور صبح سویرے ہشاش بشاش اٹھ جاتے تھے۔بچے پڑھائی اور کھیل کود میں مصروف ہو جاتے جب کہ بڑے اپنے اپنے کام کاج میں لگ جاتے تھے۔

 حال ہنسی خوشی گزر رہا تھا اور فکرِ فردا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایک دوسرے سے ملنا جلنا اور وقتِ ضرورت کام آنا معاشرتی زندگی کا معمول تھا۔

 لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک تھے۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ایک دوسرے سے بے لوث محبت اور بھائی چارہ سماجی دستور تھا۔ سادہ زندگی اور بلند خیالات انسان کی زندگی کا جوہر تھا۔ لوگ کھانا کھا کر جلد سو جاتے تھے اور صبح سویرے اٹھ جاتے تھے اور اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے تھے۔

اس زمانہ کو جب یاد کرتے ہیں تو:

اک ٹیس جگر میں اٹھتی ہے اک درد سا دل میں ہوتا ہے

اس کے بعد وقت نے کروٹیں لینا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدلنے لگا۔ جوں جوں قدریں پامال ہوتی گئیں توں توں قلب و ذہن کی کیفیت بھی بدلتی گئی۔ انگریزی کے ممتاز شاعر اولیور گولڈ اسمتھ کی مشہور نظم دی ڈیزرٹڈ ولیج صنعتی انقلاب پر نوحہ کا درجہ رکھتی ہے۔

عظیم شاعر اِس نظم میں صنعتی انقلاب پر ماتم کناں ہیں۔ اِس نظم میں گولڈ اسمتھ نے اس گاؤں کی عکاسی کی ہے جس نے صنعتی انقلاب کے نام پر پورا نظام تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نت نئی مشینوں کی ایجاد نے ترقی کے نئے نئے دروازے کھول دیے ہیں لیکن مادی ترقی اور اخلاقی پستی کے درمیان عدم توازن نے زندگی کو جنجال بنادیا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کیا خوب کہا ہے:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

انسان نے خلا کو تسخیر کر لیا ہے لیکن اس کی زندگی میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اُسے کیسے پُر کیا جائے۔ ایک طرف نئی نئی دوائیں ایجاد ہو رہی ہیں اور دوسری جانب نت نئی بیماریوں جنم لے رہی ہیں۔ ایسی بیماریاں جو کہ لاعلاج ہیں۔ جنگیں اور لڑائیاں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں لیکن وہ میدانِ کار زار تک محدود ہوتی تھیں لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ غلطی سے ایک بٹن دب جائے تو دشمن تو کیا پوری دنیا فنا ہوجائے۔

ایٹم بموں کے زور پہ اینٹھی ہے یہ دنیا

بارود کے ایک ڈھیر پہ بیٹھی ہے یہ دنیا

جب آدمی کے اندر سے انسانیت ہی نکل جائے تو پھر اُسے انسان کے نام سے پکارنے کا بھلا کیا جواز ہے۔ سوال یہ ہے کہ شام میں پچاس سال سے جو کچھ بھی ہو رہا تھا اسے کرنے والوں کو کیا انسان کہا جاسکتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں قیامتِ صغریٰ برپا کرنے والے یہودی کیا انسان کہلانے کے مستحق ہیں؟ ایسا سلوک تو درندے بھی نہیں کرتے۔

ہو یہ رہا ہے کہ حیوانِ ناطق کہلانے والا دو ٹانگ پر کھڑا ہوا ڈھانچہ حیوانِ مطلق بننے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں جس تیزی سے ترقی ہورہی ہے اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشیل انٹیلیجنس (اے آئی) دنیا کا نقشہ ہی پلٹ کر رکھ دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں