بدنام زمانہ گوانتانامو جیل سے ایک اور بے گناہ مسلمان قیدی کو 22 سال بعد رہائی مل گئی

رداح بن صالح الیزیدی کو امریکی فوج نے بغیر کوئی الزام لگائے اور ٹرائل کے 22 سال قید رکھا


ویب ڈیسک December 31, 2024

امریکا کی بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے سے رداح بن صالح الیزیدی کو رہا کرکے تیونس کے حوالے کردیا گیا۔

 عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن کی صدارت کے خاتمے سے قبل گوانتاناموبے جیل سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری ہے۔

امریکی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ رداح بن صالح الیزیدی کو ان کے آبائی وطن تیونس بھیج دیا گیا۔

 امریکا نے گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے جوبائیڈن انتظامیہ نے دو ہفتوں میں چوتھے قیدی کو رہا کیا ہے۔

رداح الیزیدی کو ایک سخت انٹر ایجنسی جانچ پڑتال کے بعد رہا کرنے کا اہل قرار دیا گیا۔ اس انویسٹی گیشن کا آغاز31 جنوری 2024 کے وزیر دفاع  کی جانب سے رہا کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 59 سالہ رادح بن صالح الیزیدی پر امریکا کی جانب سے کبھی بھی کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا تھا اور ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل ان کی منتقلی کی منظوری دی گئی تھی۔

تاہم تیونس کی حکومت کے ساتھ اب تک انہیں وطن لانے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ دعویٰ کیا تھا کہ رادح بن صالح الیزیدی کو پاکستانی فوجیوں نے دسمبر 2001 میں افغانستان کی سرحد کے قریب پکڑا تھا۔

بعد ازاں امریکی فوج نے رادح الیزیدی کو 11 جنوری 2002 کو گوانتاناموبے جیل منتقل کیا۔ 

اب بھی گوانتاناموبے میں 26 قیدی موجود ہیں جن میں سے 14 رہائی کے لیے اہل قرار پائے ہیں۔ 3 قیدی اپنی حیثیت کا وقتاً فوقتاً جائزہ لینے کے اہل ہیں جب کہ 7 فوجی کمیشن کے عمل میں شامل ہیں اور صرف 2 قیدیوں کو سزا سنائی گئی ہے۔

یاد رہے کہ کیوبا میں امریکی فوجی اڈے پر واقع یہ جیل ایک ایسے قانونی نظام کے تحت چلتی ہے جس کی قیادت فوجی کمیشن کرتی ہے جو روایتی امریکی عدالتوں کی طرح کے حقوق کی ضمانت نہیں دیتی۔

رہائی کے لیے اہل قرار دیے گئے قیدی بعض اوقات گوانتاناموبے میں برسوں گزارتے ہیں کیونکہ امریکا اُن ممالک کی تلاش میں رہتا ہے جو اس قیدی کی رہائی کے بعد انھیں واپس لے جائیں، کچھ حکومتیں انھیں واپس لینے کو تیار نہیں ہوتیں۔

 

گوانتانامو بے میں ایک بار تقریباً 800 قیدی رکھے گئے تھے جن میں سے اکثر نے ابتدائی طور پر سی آئی اے کے خفیہ مقامات پر وقت گزارا جسے "بلیک سائٹس" کہا جاتا ہے جہاں کچھ کو سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کی طرف سے اختیار کردہ "بہتر تفتیش" پروگرام کے تحت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس دور میں یہ سہولت امریکی زیادتیوں کی ایک مستقل علامت بن گئی۔ سابق صدر بش کے بعد آنے والے صدر بارک اوباما نے اس سہولت کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن قانونی تکنیکی اور ملکی سیاسی مخالفت کی وجہ سے وہ بڑی حد تک ناکام رہے تھے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں