لاہور جو کبھی سیاست کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور یہاں کی سیاسی محفلوں کی گونج ملک بھر میں سنائی دیتی ہے لیکن طویل عرصے سے لاہور کی یہ سیاسی محفلیں اور اکٹھ معدوم ہوچکے ہیں۔
اس کی ایک بنیادی وجہ یہ رہی کہ سیاست کا مرکز لاہور سے اسلام آباد منتقل ہو گیا ہے اور دوسری وجہ بزرگ سیاستدان اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں جو لاہور کی سیاسی رونقیں بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے۔
مرحوم نوبزادہ نصر اللہ خان کی سیاسی محفلیں خوب رنگ جماتی رہیں تو دوسری جانب لاہور کے مختلف ریستورانوں میں مختلف طبقہ فکر کے لوگ جمع ہوتے تھے اور سیاست پر بحث کرتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ لاہور سیاسی طور پر بانجھ ہو گیا ہے اور کسی ایسے سیاسی رہنماء کا وجود باقی نہیں رہا جس کی محفل میں لوگ جمع ہوں اور مہذبانہ طریقے سے ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف کر سکیں۔
میں تو اس عہد کا شاہد نہیں لیکن بزرگوں کی محفلوں میں یہ سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کا مرکز لاہور تھا اور ملک بھر سے سیاسی رہنماء اس شہر میں اکٹھے ہوتے اور محفلیں برپا کرتے تھے۔
ایک طویل مدت کے بعد لاہور میں ایک سیاسی اجتماع منعقد ہوا ، یہ اجتماع خواجہ سعد رفیق اور ان کے برادر خورد سلمان رفیق نے اپنے والد خواجہ رفیق شہید کی برسی کے موقع پر منعقد کیا۔ لاہور کے ایک پنچ ستارہ ہوٹل کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور سیاسی گفتگو کے پیاسے لاہوریئے سیاسی رہنمائوں کو سننے کے لیے جمع تھے۔
مقررین میںصحافتی شخصیات ،مسلم لیگ ن کے رہنما اور جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ شامل تھے ۔ اگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ایک آدھ رہنما کا تڑکا بھی لگ جاتا توچندے مہتاب تقریب مزید شاندار ہوجاتی اور مختلف نقطہ نظر سامنے آتا۔ تقریب کے آغاز میں جناب سعد رفیق جو لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات کہنے سے نہیں چوکتے اور ایک واضح سیاسی نقطہ نظر رکھتے ہیں، وہ خود کئی مرتبہ سیاسی انتقام کا نشانہ بن چکے ہیں لیکن بدلے میں وہ سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتے۔
انھوں نے ببانگ دہل اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کویہ غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کہ سیاست میں کوئی کسی کو دفن کر سکتا ہے اور بات سیاست سے ہی آگے چلتی ہے، سیاست کا مقابلہ سیاست سے ہی کیا جائے تو اصلاح احوال کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
خواجہ رفیق شہید کی سیاسی میراث سنبھالے انھیں نصف صدی گزر چکی ہے، وہ اپنی بات صاف الفاظ میں کہنے کے عادی ہیں اور شاید وہ صف اول کے ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جنھوں نے بڑے وقار اور خندہ پیشانی سے سیاسی میدان میں اپنی شکست تسلیم کیا اور بعد میں اپنی ہی حکومت کا حصہ بننے سے معذرت بھی کر لی۔
خواجہ صاحب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کو نہ صرف خوش آیند قرار دیتے ہیںبلکہ اس کی کامیابی کے لیے انھوں نے بطور ایک سیاسی کارکن یہ تجویز بھی پیش کی کہ ملک کے صف اول کے سیاسی رہنماء جو حکومت یا تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہیں، ان کو بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، ان کی تجویز کا مقصد جو میں سمجھ پایا ہوں یہ تھا کہ حکومتی اورپارٹی وابستگی سے ہٹ کر سیاسی فیصلے کیے جائیں اور ملک بھر کے عوام کی نمایندہ جماعتوں کو اس مذاکراتی عمل میں شریک کیا جائے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں آصف علی زرادری ، میاں نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کو بھی شریک کیاجائے ۔ ان کی صائب رائے تجویزکا مطمع نظر یہ تھا کہ اصل میں ان مذاکرات کی کامیابی کا فیصلہ جنھوں نے کرنا ہے، ان کی شراکت بھی لازمی ہے ۔
یہ وہ اصل بات ہے جو رانا ثنا ء اللہ نے کی ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ وہ اپنے تجویز کردہ ان تینوں رہنمائوں کو ایک میز پر کیسے اکٹھا کرپر پائیں گے لیکن اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف مذاکرات کی کامیابی کی امید بر آسکتی ہے بلکہ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہو سکتا ہے اور ایک نیا میثاق جمہوریت بھی سامنے آسکتا ہے۔ ان کی تجویز کے بعد خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ یکایک تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات پر تیار ہو جانا کسی انجانے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے اور مسلم لیگ کو ایسے کسی نادیدہ خطرے سے ہوشیار رہنا چاہیے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی ایک ایسے موقع بھی آئے جب سیاسی دشمنیاں سیاسی دوستی میں بدل گئیں ، میاں نواز شریف اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت اس کی ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ جناب پرویز الٰہی پیپلز پارٹی کی حکومت میں نائب وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اختلاف کسی بھی وقت کوئی بھی موڑ لے سکتے ہیں اور یہ کہنا درست ثابت ہو جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیںہوتا۔ اس وقت سیاسی معاملہ فہمی سے ملک کو آگے لے چلنے کی ضرورت ہے اور بقول رانا ثناء اللہ خان اس مذاکراتی عمل کے اصل روح رواں خواجہ سعد رفیق ہیں۔ خواجہ صاحب نے جو سیاسی ڈول ڈالنے کی کوشش کی ہے، ایسی ہی دیانتدارانہ کاوشوںسے ملک سیاسی استحکام کی جانب بڑھے گا۔
خدا کرے کہ ہمارے قائدین ہوش کے ناخن لے لیں لیکن اگر ہمارے سیاسی زعماء یونہی دست و گریبان رہے تو پھر عوام جمع خاطر رکھیں حالات جوںکے توں ہی رہیں گے اور دشمن ہمارے درمیان تفرقہ بازی کو فروغ دیتے رہیں گے۔اصلاح احوال کے لیے جو قدم سعد رفیق نے اٹھایا ہے اس طرح کے سیاسی مباحثے اور مکالمے کو فروغ دینا چاہیے ۔
یہ سیاسی مکالمے نئی راہیں کھولیں گے اور سیاسی گھٹن کے خاتمے کا باعث بنیں گے کیونکہ بات بالآخر سیاست دانوں کے درمیان ہی بنے گی ، پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کی سبیل سیاستدان ہی پیدا کریں گے ۔ کاش کہ یہ سب کی سمجھ میں آجائے اور وہ پاکستان کی اصلاح کے لیے آلہ کار بن جائیں۔