پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر باقاعدہ جھڑپ ہوئی ہے۔ یہ جھڑپ 27اور28دسمبر کی رات ہوئی۔ یہ دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان باقاعدہ پہلی بڑی جھڑپ تھی۔ اس سے پہلے افغانستان یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان نے اس کے علاقے پکتیا میں سرجیکل اسٹرئیک کی ہے۔
جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ اسنے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کی اس سرجیکل اسٹرائیک نے افغان طالبان کی حکومت کی افغانستان کے اندر بہت سبکی کی ہے۔ ان کی پوزیشن بہت خراب ہوئی۔
اسی لیے افغان وزارت دفاع اور افغان وزارت خارجہ نے اس حوالے سے بہت سخت بیانات جاری کیے۔ جن میں بدلہ لینے کی بات بھی شامل تھی۔ ایسے بیانات جاری کیے گئے کہ افغانستان کی جنگ کی ایک تاریخ ہے۔ ہم نے روس اور مریکہ کو شکست دی ہے۔ اس لیے ہماری جنگی تاریخ کو سامنے رکھ کر پاکستان کوئی قدم اٹھائے۔
اس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے بھی بیانات دیے گئے کہ طالبان کی افغان حکومت یہ طے کر لے کہ اس کو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہیے یا وہ دہشت گردوں بالخصوص ٹی ٹی پی کو ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ اسے پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے ایک کو چننا ہوگا۔
اس طرح دونوں طرف سے بیانات کی جنگ بھی نظر آئی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب افغان حکومت نے پاکستان پر ان کے علاقہ میں سرجیکل اسٹرائیک کا الزام لگایا۔ اور پاکستان کا جواب ہے کہ اس نے سرحدی علاقے میں دہشت گردوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس وقت پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے محمد صادق بھی کابل میں تھے۔ اور افغان حکام کے ساتھ اسی موضوع پر مذاکرات کر رہے تھے۔
بہر حال پکتیا کی سرجیکل اسٹرائیک کے بعد شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک محدود علاقہ میں دونوں ممالک کی فوج کے درمیان جنگ ہی ہوئی ہے۔ اب اس جنگ کے بعد بین الاقوامی آزادی ذرایع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ افغانستان کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔
ان کے فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ اور اس جھڑپ میں ان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے جو لوگ شریک تھے۔ وہ بھی جہنم واصل ہوئے ہیں۔ پاکستان کے مطابق خارجی بھی جہنم واصل ہوئے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی چھ سرحدی چیک پوسٹ پر بھی قبضہ کر لیا۔ جہاں سے پاکستان کے خلاف جارحیت ہو رہی تھی۔ جب تک میں تحریر لکھ رہا ہوں اطلاعات یہی ہیں کہ وہ چھ چیک پوسٹ پاکستان کے پاس ہیں۔
اور اب سفارتی سطح پر افغانستان ان چھ چیک پوسٹ کی واپسی کے لیے بات کر رہا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایک افغان جہاز بھی مار گرایاگیا ہے۔ جو سرحدی علاقہ کی پٹرولنگ کر رہا تھا۔ ایک ٹینک بھی تباہ کیا گیاہے۔ جو وہ ان جھڑپوں کے لیے لائے تھے۔ اس طرح افغان فوج کا کافی نقصان ہوا ہے۔
پاکستان نے اس ساری صورتحال پر مکمل خاموشی رکھی ہے۔ ویسے تو سرجیکل اسٹرائیک کے بعد بھی خاموشی ہی رکھی گئی تھی۔ اور ان جھڑپوں کے بعد بھی خاموشی رکھی گئی تھی۔ لیکن اٖفغانستان کی طرف سے ایک میڈیا جنگ بھی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے میڈیا کو ایسی خبریں دے رہے ہیں جیسے انھوں نے پاک فوج کے خلاف کوئی بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
فیک وڈیوز چلائی جا رہی ہیں۔ اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایک ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ جیسے وہ جیت گئے ہیں۔ شاید یہ ان کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اگر وہ یہ مان لیں کہ وہ ہار گئے ہیں۔ تو عوام ان کے خلاف ہو جائیں۔ ان کی تو افغانستان میں حکومت قائم ہی ڈر ،خوف اور دہشت کی وجہ سے ہے۔ اگرافغانستان کے عوام میں ان کا ڈر، خوف اور دہشت ختم ہوگئے تو ان کا اپنی حکومت قائم رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے وہ اپنے لوگوں کو یہی بتا رہے ہیں کہ ان کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ فیک وڈیوز اور فیک بیانات چلائے جا رہے ہیں۔
افغانستان کو شاید یہ بات سمجھ آگئی ہوگی کہ ماضی میں انھوں نے پاکستان کی مدد سے گوریلا جنگ لڑی ہیں۔ لیکن ان کی فوج باقاعہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے۔ ان کی فوج پاکستان کی فوج کے مقابلے میں پانچ سو فیصد کمزور ہے۔ ان کے پاس گوریلا جنگ کا اسلحہ تو ہے۔ لیکن فوجی جنگ کے لیے جو بڑا سلحہ درکا رہے وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ کوئی ائیر ڈیفنس سسٹم نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کی ائیر فورس مرضی سے ان کے علاقہ میں کارروائی کر سکتی ہے۔ جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ خود کابل میں ان کے لوگوں نے یہ تبصرے کیے ہیں کہ اگر پاک فوج نے پیش قدمی شروع کی تو افغان طالبان نہیں روک سکتے اور پاکستان آسانی سے کابل پہنچ جائے گا۔
بہر حال پاکستان اور افغانستان کے درمیان 28دسمبر کی صبح سے ایک سیز فائر موجود ہے۔ دونوں طرف سے پھر کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔ فیک نیوز ضرور چلائی گئی ہیں۔ لیکن سرحد پر کوئی حرکت نہیں کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کی اس کارروائی سے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کو بھی یہ معلوم ہو گیا ہے کہ وہ افغانستان میں کوئی محفوظ نہیں ہیں۔ وہ کسی بھی وقت پاکستان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ جس نے ان کی تمام دہشت گردی کی حکمت عملی کو تبدیل کر دیا ہوگا۔
ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کسی دوسرے ملک پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے۔ اس سے پہلے جب ایران نے پاکستان پر بے وجہ ایک میزائل داغ دیا تھا۔ تو پاکستان نے اگلے ہی دن جوابی میزائل مارکر وہاں موجود دہشت گردوں کا صفایا کر دیا تھا۔ جس کے بعد ایران بھی خاموش ہو گیا تھا۔
اب جب پاکستان کے فوجیوں کے شہادتیں ہوئی ہیں تو افغانستان پر بھی اگلے دن سرجیل اسٹرائیک کی گئی ہے۔ اس طرح پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسی واضع ہے کہ ہم فوری جوابی کارروائی کریں گے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ کسی بھی قسم کی کوئی رعائت نہیں دی جائے گی۔
افغانستان کو پاکستان کے خلاف پاکستان کی دشمن طاقتیں استعمال کرتی ہیں۔ افغانستان کی گزشتہ حکومت میں بھی افغانستا ن کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف خوب استعمال کیا گیا تھا۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ لیکن اب کھیل بدل گیا ہے۔پاکستان نے سرجیکل اسٹرائیک کر کے واضع کر دیا ہے کہ ہم دشمن کو اس کے گھر میںگھس کر ماریں گے۔
یہ پاکستان کی نئی پالیسی ہے اور یہ درست پالیسی ہے۔ اس نے افغانستان کو پریشان کر دیا ہے۔ ان کو اندازہ ہے کہ باقاعدہ جنگ مشکل ہے۔ بہت مار پڑے گی۔ اسی لیے اب سیز فائر کی بات ہو رہی ہے۔ اب افغان وزیر خارجہ جو پہلے دھمکیاں دے رہے تھے، اب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان کی فوج کو افغانستان پر جارحیت سے روکیں۔
مل کر بات کریں۔ پہلے تو سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ اب ٹی ٹی پی پر بات کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ پہلے کہتے تھے ہمارے مہمان ہیں۔ ویسے تو واخاں کوریڈور کے بارے میں بہت خبریں آئی ہیں۔ لیکن وہ بھی فیک ہیں۔ البتہ اہم بات یہ ہے کہ ایک شور ضرور مچ گیا ہے کہ پاکستان اس کوریڈور پر باآسانی قبضہ کر سکتا ہے۔ جس کے بہت تجارتی فائدے ہوںگے۔