شبِ قدر بخشش کی رات
جس قدر اخلاص و محنت اور للٰہیت کے ساتھ اس ’’شبِ قدر‘‘ میں عبادت و ریاضت اور دعا وغیرہ کی جائے اس قدر اس کے۔۔۔
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں وہ ''شبِ قدر'' بھی ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔
جس قدر اخلاص و محنت اور للٰہیت کے ساتھ اس ''شبِ قدر'' میں عبادت و ریاضت اور دعا وغیرہ کی جائے اس قدر اس کے اجر و انعام میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ حضور ﷺ نے اس شب قدر سے محروم رہنے والے شخص کو خیر سے محروم اور حقیقی محروم قرار دیا ہے۔
درحقیقت یہ اﷲ رب العزت کی طرف سے امت محمدیہ ﷺ کی بخشش و مغفرت کے لئے بہانے ہیں۔ کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے اور آسمانوں پر اس کی بخشش و مغفرت کے فیصلے کر دیے جائیں، اور کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے رمضان المبارک جیسا مغفرت کا مہینہ معصیت و نافرمانی اور غفلت میں گزارنے کے بعد اب شب قدر سے بھی محروم رہے۔ اس سے بڑھ کر اس رات کی فضیلت کیا ہو سکتی ہے کہ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ''سورۃ القدر'' کے نام سے پوری سورت اس کی عظمت میں نازل فرمائی، جس میں شب قدر کی خصوصیات ذکر کی گئی ہیں۔ (1) اس رات میں قرآن مجید نازل ہوا (2) اس رات میں فرشتے آسمانوں سے اترتے ہیں (3) یہ رات ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہے (4) اس رات میں صبح صادق تک خیر و برکت اور امن و سلامی کی بارش ہوتی ہے۔
مفسرین نے قرآن مجید میں اس رات کا نام ''لیلۃ القدر'' رکھنے کی مختلف وجوہات ذکر کی ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر میں جو لفظ '' قدر'' ہے اس کا معنیٰ ''تقدیر و حکم'' کے ہیں، چونکہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے جو کائنات کا تدبیر اور تنفیذِ امور کے لئے مامور ہیں اس لیے اس کا نام لیلۃ القدر رکھا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ '' قدر'' کے معنیٰ عظمت و شرافت کے بھی آتے ہیں۔ چونکہ یہ رات بھی عظمت و شرافت والی رات ہے اس لیے اس کا نام بھی '' لیلۃ القدر'' رکھا گیا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس میں بڑی عظیم مرتبے و شان والی کتاب (قرآن مجید) نازل ہوئی ہے۔ دوسرا یہ کہ ذی مرتبہ فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئی ہے، تیسرا یہ کہ ذی مرتبہ امت پر نازل ہوئی ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں لفظ ''قدر'' تین مرتبہ ذکر کیا ہے۔
اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ ''قدر'' کے ایک معنیٰ '' ضِیْق '' یعنی تنگی کے بھی آتے ہیں۔ چونکہ اس رات میں زمین پر فرشتے اس قدر زیادہ اور کثیر تعداد میں اترتے ہیں کہ زمین باوجود اپنی وسعت و کشادگی کے تنگ پڑ جاتی ہے۔
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ''شبِ قدر'' میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہوا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں (بخاری و مسلم)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ''شبِ قدر'' اﷲ تعالیٰ نے میری امت کو عطا فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی۔ اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ اس امت پر اس انعام و اکرام کا سبب کیا ہے؟ بعض احادیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت لمبی عمریں ہوئی ہیں اور آپ ﷺ کی '' امت '' کی عمریں بہت تھوڑی اور کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے۔ اس پر حضور ﷺ کو بہت رنج و افسوس ہوا، اس کی تلافی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ رات (شبِ قدر) مرحمت فرمائی۔ بعض روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ ایک ہزار مہینے تک اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتا رہا۔ صحابہ کرامؓ کو اس پر ''رشک'' آیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کی تلافی کے لئے اس رات (شبِ قدر) کا نزول فرمایا۔
حضرت عبادہ ؓ نے حضور ﷺ سے ''شبِ قدر'' کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخر رات میں ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ حضور ﷺ سے نقل فرماتی ہیں لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری شریف) حضرت ابی ابن کعبؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے (مسلم)
حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن عمرؓ اور سیدنا حضرت امیر معاویہؓ بھی حضور ﷺ سے یہی نقل کرتے ہیں کہ وہ (لیلۃ القدر) رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے (ابن کثیر)
حضرت عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اس لیے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرما دیں۔ مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھا لی گئی۔ کیا بعید ہے کہ یہ اٹھا لینا اﷲ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو، لہٰذا اب اس رات کو انتسویں، ستائیسویں اور پچسویں شب میں تلاش کرو۔
حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق ''شب قدر'' کی تعیین اٹھا لینے میں بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے کوئی بہتری ہے۔ اگر شب قدر کا علم باقی رکھا جاتا اور بتا دیا جاتا تو پورا رمضان المبارک سستی و غفلت میں گزرتا اور صرف شب قدر میں عبادت کی جاتی، یا جس کی شبِ قدر بغیر عبادت کے گزر جاتی تو باقی رمضان المبارک کے ایام دکھ اور افسوس میں گزر جاتے۔ اب انسان شب قدر کی تلاش میں ہر وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہتا ہے اور شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وقت اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں گزارتا ہے لیکن شب قدر کا زیادہ احتمال ستائیسویں شب میں ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اﷲ (ﷺ) اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور ﷺ نے یہ دعا بتائی!
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ'' تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنْیِّ
(ترمذی، مشکوٰۃ)
ترجمہ! اے اﷲ بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، پس تو میری خطائیں بھی معاف فرما دے''
احادیث میں دعا مانگنے کی بڑی فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے، اس لیے ''شب قدر'' میں اور ہر وقت اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے، دعا زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو نہایت عاجزی و انکساری سے اﷲتعالیٰ کے حضور فریاد کرتے ہیں، دعا کے لئے وہ الفاظ زیادہ قیمتی اور مؤثر ثابت ہوتے ہیں جو دل سے اٹھتے ہیں اور زبان کی پوری تاثیر کو ساتھ لیے بارگاہ ایزدی میں پہنچتے ہیں، ایسے الفاظ رحمت خداوندی اور بخشش و مغفرت کو گناہ گار کے دامن میں لاڈالتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ہم کو شبِ قدر کا حق ادا کرنے اور اﷲ کی رحمت و بخشش و مغفرت کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جس قدر اخلاص و محنت اور للٰہیت کے ساتھ اس ''شبِ قدر'' میں عبادت و ریاضت اور دعا وغیرہ کی جائے اس قدر اس کے اجر و انعام میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ حضور ﷺ نے اس شب قدر سے محروم رہنے والے شخص کو خیر سے محروم اور حقیقی محروم قرار دیا ہے۔
درحقیقت یہ اﷲ رب العزت کی طرف سے امت محمدیہ ﷺ کی بخشش و مغفرت کے لئے بہانے ہیں۔ کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے اور آسمانوں پر اس کی بخشش و مغفرت کے فیصلے کر دیے جائیں، اور کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے رمضان المبارک جیسا مغفرت کا مہینہ معصیت و نافرمانی اور غفلت میں گزارنے کے بعد اب شب قدر سے بھی محروم رہے۔ اس سے بڑھ کر اس رات کی فضیلت کیا ہو سکتی ہے کہ اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ''سورۃ القدر'' کے نام سے پوری سورت اس کی عظمت میں نازل فرمائی، جس میں شب قدر کی خصوصیات ذکر کی گئی ہیں۔ (1) اس رات میں قرآن مجید نازل ہوا (2) اس رات میں فرشتے آسمانوں سے اترتے ہیں (3) یہ رات ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہے (4) اس رات میں صبح صادق تک خیر و برکت اور امن و سلامی کی بارش ہوتی ہے۔
مفسرین نے قرآن مجید میں اس رات کا نام ''لیلۃ القدر'' رکھنے کی مختلف وجوہات ذکر کی ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر میں جو لفظ '' قدر'' ہے اس کا معنیٰ ''تقدیر و حکم'' کے ہیں، چونکہ اس رات میں تمام مخلوقات کے لئے جو کچھ تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے جو کائنات کا تدبیر اور تنفیذِ امور کے لئے مامور ہیں اس لیے اس کا نام لیلۃ القدر رکھا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ '' قدر'' کے معنیٰ عظمت و شرافت کے بھی آتے ہیں۔ چونکہ یہ رات بھی عظمت و شرافت والی رات ہے اس لیے اس کا نام بھی '' لیلۃ القدر'' رکھا گیا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس میں بڑی عظیم مرتبے و شان والی کتاب (قرآن مجید) نازل ہوئی ہے۔ دوسرا یہ کہ ذی مرتبہ فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئی ہے، تیسرا یہ کہ ذی مرتبہ امت پر نازل ہوئی ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں لفظ ''قدر'' تین مرتبہ ذکر کیا ہے۔
اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ ''قدر'' کے ایک معنیٰ '' ضِیْق '' یعنی تنگی کے بھی آتے ہیں۔ چونکہ اس رات میں زمین پر فرشتے اس قدر زیادہ اور کثیر تعداد میں اترتے ہیں کہ زمین باوجود اپنی وسعت و کشادگی کے تنگ پڑ جاتی ہے۔
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ''شبِ قدر'' میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہوا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں (بخاری و مسلم)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ''شبِ قدر'' اﷲ تعالیٰ نے میری امت کو عطا فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی۔ اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ اس امت پر اس انعام و اکرام کا سبب کیا ہے؟ بعض احادیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت لمبی عمریں ہوئی ہیں اور آپ ﷺ کی '' امت '' کی عمریں بہت تھوڑی اور کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے۔ اس پر حضور ﷺ کو بہت رنج و افسوس ہوا، اس کی تلافی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ رات (شبِ قدر) مرحمت فرمائی۔ بعض روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ ایک ہزار مہینے تک اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرتا رہا۔ صحابہ کرامؓ کو اس پر ''رشک'' آیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کی تلافی کے لئے اس رات (شبِ قدر) کا نزول فرمایا۔
حضرت عبادہ ؓ نے حضور ﷺ سے ''شبِ قدر'' کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخر رات میں ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ حضور ﷺ سے نقل فرماتی ہیں لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری شریف) حضرت ابی ابن کعبؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے (مسلم)
حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن عمرؓ اور سیدنا حضرت امیر معاویہؓ بھی حضور ﷺ سے یہی نقل کرتے ہیں کہ وہ (لیلۃ القدر) رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے (ابن کثیر)
حضرت عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اس لیے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرما دیں۔ مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھا لی گئی۔ کیا بعید ہے کہ یہ اٹھا لینا اﷲ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو، لہٰذا اب اس رات کو انتسویں، ستائیسویں اور پچسویں شب میں تلاش کرو۔
حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق ''شب قدر'' کی تعیین اٹھا لینے میں بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے کوئی بہتری ہے۔ اگر شب قدر کا علم باقی رکھا جاتا اور بتا دیا جاتا تو پورا رمضان المبارک سستی و غفلت میں گزرتا اور صرف شب قدر میں عبادت کی جاتی، یا جس کی شبِ قدر بغیر عبادت کے گزر جاتی تو باقی رمضان المبارک کے ایام دکھ اور افسوس میں گزر جاتے۔ اب انسان شب قدر کی تلاش میں ہر وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہتا ہے اور شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وقت اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں گزارتا ہے لیکن شب قدر کا زیادہ احتمال ستائیسویں شب میں ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اﷲ (ﷺ) اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور ﷺ نے یہ دعا بتائی!
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ'' تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنْیِّ
(ترمذی، مشکوٰۃ)
ترجمہ! اے اﷲ بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، پس تو میری خطائیں بھی معاف فرما دے''
احادیث میں دعا مانگنے کی بڑی فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے، اس لیے ''شب قدر'' میں اور ہر وقت اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے، دعا زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو نہایت عاجزی و انکساری سے اﷲتعالیٰ کے حضور فریاد کرتے ہیں، دعا کے لئے وہ الفاظ زیادہ قیمتی اور مؤثر ثابت ہوتے ہیں جو دل سے اٹھتے ہیں اور زبان کی پوری تاثیر کو ساتھ لیے بارگاہ ایزدی میں پہنچتے ہیں، ایسے الفاظ رحمت خداوندی اور بخشش و مغفرت کو گناہ گار کے دامن میں لاڈالتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ہم کو شبِ قدر کا حق ادا کرنے اور اﷲ کی رحمت و بخشش و مغفرت کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین