سرتاج خان ان نوجوانوں میں سے ہیں جو زمانہ طالب علمی میں مارکسزم کے اسیر ہوئے، کراچی یونیورسٹی سے جغرافیہ میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور گزشتہ 30 برسوں سے تحقیق و تنقید کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنایا ہوا ہے۔ان کا موضوع مارکس ازم، تحریکیں، سامراج، سرمایہ دارانہ ترقی اور اس کے اثرات ، نیو لبرل ازم سے لے کر دیہی و شہری مسائل، سماجی تبدیلیاں اور ماحولیات ہیں۔
ان کی تصنیف خیبر پختون خوا میں دیہی غریب کی تحریک (پختون خوا میں قوم پرست اور کسان تحریک کا ایک تنقیدی جائزہ) گزشتہ صدی میں چلنے والی تحریکوں کا معروضی جائزہ ہے، یہ کتاب 332 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتساب استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے نام کیا گیا ہے۔
اس کتاب کو سترہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میںبتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بیسویں صدی میں کسان تحریک اور اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں طالبان تحریک کے ابھار نے روایتی تاریخ نویسی کے لیے کئی چیلنج پیش کیے ہیں لہٰذا یہ کتاب لکھنے کی اہم وجہ اس خلاء کو پر کرنے کی ایک کوشش ہے جو روایتی تاریخ نویسی نے چھوڑی ہے۔
کسان اور انقلابی تحریکوں کے ابھار نے پشتون سماج کے حوالے سے تاریخ نویسی کے لیے ایک بڑا مسئلہ یعنی اس میں سماجی تفریق اور طبقات کے حوالے سے کھڑا کردیا ہے۔ اشرافیائی تاریخ اور سماجی تحقیق، پشتون سماج میں کئی قسم کی سماجی تفریق و طبقاتی تقسیم سے انکاری ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 1938ء کے بعد قوم پرست تحریک کے پیچھے معاشی و معاشرتی وجوہات تلاش کرنے سے زیادہ ایک سازشی تھیوری کے گرد چلتی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح مولوی اور کسب گر کے مزاحمتی تحریک کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ان جیسے متنازع موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کا مؤقف ہے کہ اس وقت پشتون تاریخ میں ترمیم پسندی اور پوسٹ ماڈرن ازم کا شدید حملہ جاری ہے اور ازسر نو تاریخ لکھنے پر زور ہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اس کے جواب میں جو کچھ لکھا جارہا ہے، وہ تحریکوں سے زیادہ ازسرنو تاریخ چند شخصیات کے دفاع کو ترقی پسندی کا حل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کتاب کے باب نمبر 1 ’’ سماج اور اسی تاریخ دیکھنے کے مارکسی طریقہ کار‘‘ کے عنوان سے مصنف لکھتے ہیں کہ اس کتاب میں ریسرچ کے لیے میں نے مارکسی طریقہ کار اپنایا ہے۔ مارکسی طریقہ ایک طرف نیچے سے عوامی تاریخ نویسی پر گہری چھاپ رکھتا ہے تو دوسری طرف سرمایہ داری، ترمیم پسندی اور پوسٹ ماڈرن ازم کے حملوں کی زد میں بھی ہے۔
اس باب میں بتایا گیا ہے کہ مارکس کے نزدیک پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا کوئی مثبت بات نہیں ہے۔ تاریخ کبھی بڑی شخصیتوں کے کارناموں یا واقعات کو دہرانے کا نام نہیں ہے۔ سیاسی کشمکش اور جدوجہد سے لے کر معرکوں اور جنگوں کے پیچھے معاشی و سماجی محرکات کا کھوج اور طبقاتی مفادات کو سامنے لانا میرا مدعا ہے کہ مارکس کا کہنا ہے کہ اب تک کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ان تحریکوں موضوع بحث بنایا ہے جہاں سے ان کو دیہی عوامی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی، یوں ایک سے دوسری تحریک نکلتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر قوم پرست تحریک سے کسان تحریک اور پھر ایک وقفہ ہے جس میں قوم پرست اور کسان تحریک زوال پزیر ہوئی۔
1990میں ہماری توجہ تحریک نفاذِ شریعت محمدی اور بعد ازاں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) سے ہوتے ہوئے طالبان اور پی ٹی ایم کی طرف جاتی ہے۔ اس کتاب میں دیہی غربت خیبر پختون خوا کے سماجی لحاظ سے دیہی غربت کی تقسیم یوں رکھی ہے۔ (1) چھوٹے مالکان کاشت کار (2) ایکڑ سے کم رقبہ کے مالک (بارانی علاقوں میں) (3) چھوٹے مالکان مزارے (4) بٹائی پر کام کرنے والے (5) بے زمین مزدور (6) دیگر شعبوں میں مصروفِ کار مزدور۔
کتاب کے باب2 میں ’’ پختون خوا میں دیہی غریب کی تحریکوں کا تاریخی ورثہ ‘‘کے عنوان سے بتایا گیا ہے کہ مغل بادشاہ اکبر نے باقی ہندوستان کی طرح خیبر پختون خوا میں منصب داری نظام کے نفاذ کی کوششوں کے نام پر یلغار کی تو دیہی عوام اس کے خلاف روشنائی تحریک میں منظم ہو کر آگئے۔
اسی طرح دوران سکھ مفاداتی گٹھ جوڑ کے خلاف دیہی پشتونوں نے تحریک مجاہدین کا حصہ بن کر مقابلہ کیا بلکہ ان کی سلطنتوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ان کی معاون مقامی اشرافیہ کا بھی مقابلہ کیا۔ مصنف نے روشنائی تحریک اور تحریک مجاہدین پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ بقول مصنف، اولف کیرو روشنائی تحریک اور تحریک مجاہدین میں مماثلت اور فرق پر لکھتا ہے کہ دونوں تحریکوں نے اسلام کی نئی تفسیر پیش کی۔ دونوں تحریکوں کو شروع میں ہی بڑی کامیابی ہوئی لیکن آخر میں دونوں تحریکوں کے بانی مارے گئے، لیکن دونوں تحریکوں میں بہت بڑا فرق بھی ہے۔ بایزید انصاری نے مغلوں سے جنگ کی تھی۔ مغل کم از کم ظاہر تو یہی کرتے تھے کہ وہ سنی العقیدہ مسلمان ہیں۔
دوسری اہم تحریک انیسویں صدی کے پہلے نصف میں سید احمد شہید کی تحریک تھی۔ مصنف نے الطاف قادر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس خطے کی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کے علاوہ اس کے رہنے والوں کی مساوات پر مبنی سماج کی نوعیت اور کسی مرکزی اتھارٹی کے آگے سرنگوں نہ ہونے کی خصلت جیسی خوبیوں کی وجہ سے سید احمد بریلوی نے پشتون خطے کو جہاد کے لیے موزوں سمجھ کر منتخب کیا تھا مگر سید احمد بریلوی کی طرف سے مذہبی اصلاحات سے آگے امارات اختیار کرنا بہت اہم موڑ ثابت ہوا۔
الطاف قادر کی ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک کو اس خطے کے خوانین اور علماء دنوں ہی ایک جیسی وجوہات کی بناء پر اپنے لیے چیلنج سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر مبارک علی سمیت دیگر مؤرخین تحریک جہاد کی ناکامی کو شریعت کے نام پر سخت قوانین کا نفاذ اور ہندوستانی مجاہدین رہنماؤں کی پختون روایات و اقدار سے نابلد ہونا اہم وجوہ قرار دیتے ہیں۔ ایک بہت اہم تضاد شریعت کے نفاذ کے باوجود بھی پرانا حکمران طبقہ برقرار رکھنا، سماجی نظام تبدیل نہ کرنا اور اصلاحات میں خامی تھی۔
(جاری ہے)