پاکستان میں ترقی پسند ادب کے فکری اثرات

سبط حسن نے یہ ثابت کیا کہ ایک سماج کی ترقی کا انحصار اس کے فکری ارتقا پر ہوتا ہے


زاہدہ حنا January 01, 2025

کتابیں انسانی تہذیب کی روح ہیں، یہ سماجی تبدیلی کی بنیاد رکھتی ہیں، خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیتی ہیں اور ماضی کے دھندلکے میں سے مستقبل کا راستہ تلاش کرنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ پچھلے مضمون میں ہم نے ان کتابوں کا ذکر کیا تھا جنھوں نے عالمی سطح پر انسانیت کے شعور پر گہرے اثرات ڈالے۔

ان میں الہامی کتابیں، افلاطون کی ریپبلک اور مارکس اور اینگلز کا کمیونسٹ مینیفیسٹو شامل تھیں، لیکن آج ہم بات کریں گے برصغیر خاص طور پر پاکستان میں ترقی پسند ادب کی، وہ ادب جس نے ہماری اجتماعی سوچ کو نئی سمت دی اور ہمارے سماجی سیاسی اور فکری ارتقا میں نمایاں کردار ادا کیا۔

 پاکستان کی ادبی روایت ترقی پسند تحریک کے بغیر مکمل نہیں۔ یہ وہ تحریک تھی جو ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف ایک مضبوط آواز تھی۔ اس تحریک نے ادب کو محض تفریح کے بجائے ایک سماجی انقلاب کا ذریعہ بنایا۔ اس کے علم برداروں نے نہ صرف عالمی فکر سے استفادہ کیا بلکہ اس خطے کے مخصوص مسائل کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔

 پاکستان میں ترقی پسند ادب کا آغاز برطانوی راج کے دوران ہوا، جب سیاسی اور سماجی حالات میں گہرا بگاڑ پیدا ہو چکا تھا۔ اس وقت سماجی سطح پر جو مسائل درپیش تھے، ان پر بات کرنے کے لیے ادب ایک طاقتور ذریعہ تھا۔ سبط حسن کا نام پاکستان میں ترقی پسند فکر کے معماروں میں نمایاں ہے۔

ان کی تصانیف نے نہ صرف علمی حلقوں بلکہ عام قاری پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔ ان کی کتاب ’’ موسیٰ سے مارکس تک‘‘ تہذیب کی ترقی کی کہانی بیان کرتی ہے جو موسیٰ کے آزادی کے پیغام سے لے کر مارکس کے انقلابی نظریات تک پہنچتی ہے۔ یہ کتاب قاری کو ماضی اور حال کے تعلق کو سمجھنے اور اپنے سماج میں تبدیلی لانے کی ترغیب دیتی ہے۔

سبط حسن نے یہ ثابت کیا کہ ایک سماج کی ترقی کا انحصار اس کے فکری ارتقا پر ہوتا ہے۔ ان کی تحریریں آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ سماجی انصاف اور شعور کا فروغ ہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔ ان کی کتاب ماضی کے مزار بھی ایک بہت فکر انگیز کتاب ہے۔

 علی عباس جلالپوری ان ادیبوں میں شامل ہیں جنھوں نے سماجی اور فکری جمود کے خلاف قلم اٹھایا۔ ان کی کتاب ’’ چند فکری مغالطے‘‘ ایک ایسی شاہکار تصنیف ہے جو ہمارے ذہنی تعصبات اور غلط فہمیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے علمی کام کے ذریعے قاری کو سوال کرنے اور حقائق کی گہرائی میں جانے کی دعوت دی۔

جلالپوری کا خیال تھا کہ سماجی اور مذہبی جمود سے باہر نکل کر ہی ہم سماجی اصلاحات کے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔ ان کی دیگر کتابیں، جیسے ’’ فلسفہ مشرق و مغرب‘‘ اور ’’ اسلام کے فکری مکتبے‘‘ ہمارے خطے کے فکری مسائل کو عالمی تناظر میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ ان کی تحریریں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم جو کچھ بھی سمجھتے ہیں، اسے سوالیہ نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے اور اس سے آگے بڑھ کر نئے نظریات اور خیالات کو اپنانا چاہیے۔

 پاکستان میں تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنے کا سہرا ڈاکٹر مبارک علی کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے تاریخ کو محض ماضی کی کہانی کے بجائے حال اور مستقبل کے لیے ایک سبق کے طور پر پیش کیا۔ ان کی کتابیں جیسے’ تاریخ اور قومیت، تاریخ کی تلاش‘ اور ’’ عورت اور تاریخ‘‘ تاریخ کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں جنھیں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔

مبارک علی نے یہ واضح کیا کہ تاریخ کو حکمران طبقات نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ انھوں نے تاریخ کو عوامی نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی اور یہ بتایا کہ تاریخ محض حکمرانوں یا فاتحوں کی کہانیاں نہیں ہوتیں بلکہ عوامی جدوجہد کا بھی اہم حصہ ہوتی ہے۔ ان کی تحریریں قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ تاریخ کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے کیا سیکھتا ہے۔

 پاکستان کے ترقی پسند ادب میں شاعری نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ فیض احمد فیض کی شاعری ایک انقلابی صدا تھی جو ظلم جبر اور ناانصافی کے خلاف بلند ہوئی۔ ان کی نظمیں، جیسے ’’ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ ایک ایسے سماج کی امید دلاتی ہیں جہاں عدل اور انصاف کا بول بالا ہو۔

فیض کی شاعری نے سماجی اصلاحات کے لیے آواز بلند کی اور عوام کے حقوق کے دفاع کا پیغام دیا۔ اسی طرح سعادت حسن منٹو نے اپنی کہانیوں کے ذریعے سماج کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جن پر اکثر پردہ ڈال دیا جاتا تھا۔ ان کی تحریریں آج بھی ہمیں اپنے سماجی رویوں پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ منٹو کا کام سماج کی گہرائیوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اپنے کرداروں کے ذریعے سماجی منافقت جنسیت اور انسانی فطرت کو بے نقاب کرتے ہیں۔

 پاکستان کی ترقی پسند روایت برصغیر کے مشترکہ ادبی ورثے کا تسلسل بھی ہے۔ قرۃ العین حیدر کا نام اس حوالے سے نمایاں ہے۔ ان کے ناول ’’ آگ کا دریا‘‘ نے تہذیب تاریخ اور انسانی شعور کے تسلسل کو جس گہرائی اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے وہ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔

قرۃ العین حیدر نے نہ صرف برصغیر کی تاریخ کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا بلکہ اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ تاریخ میں انسانوں کے جذبات آرزوئیں اور زندگی کی حقیقتیں کس طرح اہم ہیں۔ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے اپنی کہانیوں میں تقسیم کے زخم اور سماجی ناانصافیوں کو موضوع بنایا جو آج بھی برصغیر کے ادبی افق پر جگمگا رہی ہیں۔ ان ادیبوں کی تحریریں آج بھی ہمیں سماج کے ناپسندیدہ پہلوؤں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

 یہ سب لکھاری اس بات کے قائل تھے کہ ادب محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی شعور اور تبدیلی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ ان کی تحریریں آج بھی ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ علم اور شعور کی روشنی کو کبھی مدھم نہ ہونے دیا جائے۔ یہ وہ چراغ ہیں جو ہمیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتے ہیں۔

آج جب ہمارا معاشرہ شدت پسندی، عدم برداشت اور ناانصافی کے اندھیروں میں گھرا ہوا ہے، ترقی پسند ادب کی روشنی پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ وہ ادب ہے جو سوال اٹھانے سوچنے اور سماجی تبدیلی کے خواب دیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ وہ چراغ ہیں جو ہمیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتے ہیں۔ پاکستان کے یہ ادیب اور ان کی کتابیں محض ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ہماری فکری رہنمائی کے لیے آج بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی اپنے وقت میں تھیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ سماجی تبدیلی صرف الفاظ سے ممکن ہے اور یہ الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں