عوامی سوچ کیسے بدلتی

بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی کا پانچواں وزیر اعظم بنوانے کے لیے سر توڑ کوشش آصف زرداری کر رہے ہیں


[email protected]

1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ملک میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوئی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تھے جس کے بعد ملک میں طویل مارشل لا رہا اور 1988 میں انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور 2008 میں بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت قائم ہوئی تھی اور فروری کے انتخابات کے بعد موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی شامل نہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر صدر مملکت اور ان کے بعد چیئرمین سینیٹ سمیت دو گورنر اور دو صوبوں میں پیپلز پارٹی حکمران ہے اور وہ وفاقی حکومت سے علیحدہ نہیں ہے۔

1990 میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی۔ نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے پھر شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے جس کے بعد کچھ عرصہ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ رہے اور آج پنجاب کی وزارت اعلیٰ مریم نواز کے پاس ہے۔

صوبہ سندھ میں 16 برس سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور آصف علی زرداری دوسری بار صدر مملکت ہیں جب کہ وفاق میں شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم ہیں اور 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیاں شامل تھیں اور پی پی چیئرمین بلاول زرداری وزیر خارجہ تھے، جنھیں پیپلز پارٹی کا پانچواں وزیر اعظم بنوانے کے لیے سر توڑ کوشش آصف زرداری کر رہے ہیں. 

اس لیے تین عشروں کے دوران وفاق، پنجاب اور سندھ میں دونوں پارٹیوں نے سب سے زیادہ حکومت کی ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی مسلسل تیسری دفعہ اقتدار میں ہے۔ اس پہلے وہ پانچ پانچ برس کی دو ٹرم حکومت میں گزار چکی ہے جب کہ وفاق میں پی ٹی آئی نے چار برس تک حکومت کی ہے۔

لیکن کرپشن کے الزامات صرف مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی پر لگائے جاتے رہے ہیں۔ پی پی ہی کے صدر سردار فاروق لغاری نے کرپشن کے الزام میں اپنی ہی حکومت برطرف کی تھی، صدر غلام اسحاق خان نے بھی پیپلز پارٹٰ کی حکومت برطرف کی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو برطرف کیا۔

غلام اسحاق خان نے بھی ضیاالحق کا بیانیہ آگے بڑھایا اور دونوں حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے ۔پھر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت برطرف کی تھی اور وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگاتے اور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو سیاست سے فارغ کرنے میں لگے رہے مگر ملک کے عوام کی اکثریت نے 2008 سے 2013 کے الیکشن میں کرپشن کے الزامات میں دو دو بار برطرف کی گئی دونوں ہی حکومتوں کی منتخب کیا تھا جس پر دونوں پارٹیوں کی قیادت فخریہ کہتی تھی کہ ان پر کرپشن کے الزامات غلط تھے۔

1996 میں پی ٹی آئی بنائی گئی ، 2011 ، پھر 2013 میں پی ٹی آئی اکثریت نہ لے سکی تو 2014 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں طویل دھرنا کرایا گیا مگر دونوں پارٹیوں نے متحد ہو کر پی ٹی آئی کی کوشش ناکام بنائی۔

بعد میں اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے دونوں پارٹیوں کے وزرائے اعظم کو نااہل کرا کر 2018 میں آر ٹی ایس بٹھا کر 2018 میں پی ٹی آئی کو بالاتروں نے اچھی توقعات کے ساتھ اقتدار دلایا جس کے وزیر اعظم 2011 سے پی پی اور (ن) لیگ کی قیادت کو چور ڈاکو قرار دیتے آ رہے تھے اور ان کا دعویٰ رہا کہ وہ دونوں پارٹیوں کی حکومتوں میں لوٹی گئی ملکی دولت واپس لائیں گے جو وہ اپنی حکومت میں واپس نہ لا سکے.

اور نہ ہی دونوں پارٹیوں کی قیادت اور لیڈروں کی کرپشن کو عدالتوں میں ثابت کر سکے اور خود ان کی تین وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں کرپشن عروج پر رہی اور ان کی حکومت کی برطرفی کے بعد سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کرپشن کے الزامات کے مقدمات بھگت رہے ہیں اور ان کے حامی صحافی اور اینکر جو خود بھی مختلف الزامات کی زد میں ہیں، کہہ رہے ہیں کہ بالاتروں نے انھیں پی پی اور (ن) لیگ کی کرپشن کی فائلیں دکھائی تھیں اور انھوں نے ہی دونوں پارٹیوں کو اقتدار دلایا ہے۔

پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت کی وجہ طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والی حکومتی پارٹیوں کے خلاف یکطرفہ پراپگنڈا تھا ، جس میں ان پر تواتر کے ساتھ کرپشن کے الزامات لگائے ۔عوام ان پارٹیوں کی حکومتوں سے مایوسی بھی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف چور ڈاکو کا بیانیہ بڑا مقبول ہوا، عوام کی سوچ بدلی اور وہ پی ٹی آئی کی حکومت میں اپنی حالت بدلتے اور کرپشن کے خاتمے کی امیدیں ایک نئی پارٹی سے وابستہ کر بیٹھے مگر حقیقی تبدیلی کا خواب پونے چار برس میں پورا نہ ہو سکا ۔ بانی کی حمایت میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا جاری ہے ۔موجودہ حکمرانوں کی بڑھائی گئی مہنگائی اور نااہلی سے عوام کی سوچ پھر بدلی ہے اور کرپشن مقدمات میں گرفتار بانی پھر مظلوم بننے کی کوشش کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں