اسلام آباد:
2024 ء پاکستان کیلیے سیاسی طور پر بڑا اور تبدیلی کا سال ثابت ہوا۔جس میں عام انتخابات، اہم قانون سازی میں تبدیلیاں، عدالتی اصلاحات ، مسلم لیگ ن کی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مسلسل تعطل کا شکار رہا۔
گذشتہ برس حکمران اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اختلافات گہرے ہوتے گئے جبکہ پی ٹی آئی انتخابی عمل، حکومت کی تشکیل اور اس کے نتیجے میں قانون سازی کی تبدیلیوں کے جواز کو چیلنج کرتی رہی۔
حکومت کی جانب سے قانون سازی کے دباؤ خصوصاً عدالتی اصلاحات نے نہ صرف چیف جسٹس کے انتخاب کا عمل تبدیل کر دیا بلکہ لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ عدلیہ کے پروں کو کاٹ دیا گیا۔
ہر گزرتے مہینے کے ساتھ، سیاسی ڈرامے متعدد محاذوں پر کھیلے گئے۔ پارلیمنٹ میں شعلہ انگیز تقاریر سے لے کر اعلیٰ درجے کی قانون سازی اور احتجاج سے کریک ڈاؤن تک۔ حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کی جماعتیں بیانیے کی مسلسل جنگ میں مصروف رہیں۔
گزشتہ برسوں کی طرح سیاسی و معاشی عدم استحکام، امن و امان کی صورتحال، عدالتی آزادی، انتخابی سالمیت اور فوجی اثر و رسوخ سب سے آگے رہا۔
ایسا لگتا تھا سیاسی منظر نامے پر غیر یقینی صورتحال ہی واحد یقینی چیز تھی۔ عام انتخابات جو 2023 ء میں ہونا تھے لیکن 8 فروری 2024 ء کو کرائے گئے، جس نے سیاسی ڈرامے کو دوبارہ ترتیب دیااور دھاندلی کے الزامات نے انتخابی عمل کوداغدارکردیا،جس میں پری پول دھاندلی سے پولنگ کے بعد کی بے ضابطگیوں تک کے الزامات تھے۔
ان دعوؤں کے باوجود، مسلم لیگ ن کا اتحاد کامیاب ہوا اور مخلوط حکومت قائم کی، جس سے شہباز شریف کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔
مخلوط حکومت نے جمہوری و سیاسی منظر نامے کی نازک نوعیت اجاگر کرتے ہوئے ایک اور معلق پارلیمنٹ بنانے کے لیے PML N، PPP، MQM-P اور دیگر کو ساتھ لیا۔
عام انتخابات سے پہلے، دوران اور بعد میں الیکشن کمیشن تنازعات کا مرکزرہا۔ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھیننے کے فیصلے پر تنقید اور تعصب کے الزامات لگے۔انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر نے شکوک و شبہات کو ہوا دی، جس نے اس عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
مخصوص نشستوں کے حل نہ ہونے والے مسئلے نے پیچیدگی کی ایک اور تہہ ڈال دی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی معطلی نے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے محروم کر دیا۔ یہ تعطل جس نے الیکشن کمیشن کو عدلیہ اور مقننہ کے درمیان پھنسا دیا، اس کی ساکھ ختم ہو گئی اور سیاسی تناؤ میں اضافہ ہوا۔
اس سال نے انتخابی عمل میں اعتماد بحال کرنے کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔دو اہم قانون سازی کی کارروائیوں نے سیاسی بیانیے کی وضاحت کی۔
نومبر میں، پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا بل منظور کیا۔ اس اقدام کو ملکی سیاست میں فوجی اثر و رسوخ مضبوط کرنے کے طور پر دیکھا گیا لیکن سیاسی جماعتوں اور مبصرین کی جانب سے محدود ردعمل حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
دوسرا وہ تھا جب 26ویں ترمیم نافذ کی گئی۔ بظاہر، اس ترمیم نے عدلیہ کے پروں کو کاٹ دیا، اس کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش میں جسے حکمران اتحاد نے "عدالتی حد سے تجاوز" کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس قانون سازی نے حزب اختلاف کے ساتھ بحث کا آغاز کیا کہ اس نے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کیا جبکہ حامیوں نے اسے ریاستی اداروں کے درمیان توازن کی بحالی کی جانب ایک قدم قرار دیا۔
صدر زرداری کی واپسی سیدھی نہیں تھی کیونکہ ان کے بیٹے، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم ہاؤس کی دوڑ چھوڑنی پڑی ۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اور اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں اور حامیوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن تک، پارٹی کو مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کوجیل سال بھر مرکزی نقطہ رہی۔