پہلی عالمگیر جنگ کے بعد عالمی تنازعات کو تصادم سے پہلے ختم کرنے کی نیت سے ’لیگ آف نیشنز‘ قائم کی گئی تھی، لیکن یہ ادارہ عالمی امن کی ضمانت فراہم کرنے میں بْری طرح سے ناکام ثابت ہوا۔ اسے قائم ہوئے دو دہائیاں بھی نہ گزریں تھیں کہ دنیا ایک نئی عالمی جنگ کے شعلوں میں جل رہی تھی۔
جب ایک ایسی بڑی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہوں تو یہ اندیشہ پوری شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے کہ اگر جنگ ایٹمی ٹکرائو میں تبدیل ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟۔ حال ہی میں معتبر جریدے 'Nature Food' میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں ایٹمی تصادم کی صورتحال میں ممکنہ تباہ کاریوں کا ایک جائزہ مرتب کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کو کمپیوٹر سیمولیشن (Simulations) کی مدد سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والی تابکاری، حدت اور دھماکے کے دھچکے سے چلنے والی تباہی کی لہر کی سمت اور شدت کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں فضاء اور ماحول میں آنے والی منفی تبدیلیوں اور زراعت پر مضر اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو 6 ارب 70 کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور خوراک کی ترسیل کا سارا نظام تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔
امریکہ، کینیڈا، یورپ کے بہت سے حصوں میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ امریکا کی 98 فیصد آبادی بھوک سے ہلاک ہوجائے گی۔ یہ تعداد 31 کروڑ 12 لاکھ بنتی ہے۔
جنوبی امریکا، آسٹریلیا اور کئی چھوٹے خطے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو نسبتاً بہتر طور پر سہہ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ممالک کی زراعت زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے جس بنا پر یہاں تباہ کاری کو برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
ارجنٹائن، برازیل، یوراگوئے، پیرا گوئے، آسٹریلیا، آئس لینڈ اور اومان زراعت کے معاملے میں مستحکم ممالک ہیں۔ یہ ممالک عالمی بحران کے باوجود اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل رہیں گے۔
لائیو اسٹاک (مویشیوں) پر انحصار کرنے والا غذائی نظام تین طرح کے حالات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اول یہ کہ مویشی ہلاک نہیں ہوتے اور غذائی نظام کام کرتا رہتا ہے۔ دوم یہ کہ پہلے سال کے اندر دنیا بھر کے آدھے مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں اور مویشیوں کی آدھی خوراک انسان کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہے۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مویشیوں کی آدھی خوراک انسانوں کے زیر استعمال لائی جائے اور آدھی سے مویشی گزارہ کریں۔
اس صورت میں خوراک کے ذرائع محدود ہوں گے اور صرف انتہائی بنیادی ضرورتیں ہی پوری ہو پائیں گی۔ جنگ دوسرے سال میں داخل ہوگئی تو لوگوں کو کم ترین غذائیت کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا۔ایٹمی حملے کا فوری اثر انسانی زندگیوں پر پڑے گا۔
قبرص میں واقع ’یونیورسٹی آف نکوسیا‘ میں بھی حال ہی میں ایک تحقیق ہوئی ہے جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایٹمی حملے کی صورت میں زندگی بچانے کا بہترین طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔
اس مقصد کے لئے تصوراتی طور پر 750 کلو ٹن طاقت کے بم کے حملے کو بنیاد بنایا گیا۔ (یہ بم ’ناگاساکی‘ پر گرائے جانے والے بم سے تین گْنا زیادہ طاقت کا ہوگا۔) تحقیق سے ثابت ہوا کہ محفوظ ترین جگہ گھر کا وہ کمرہ ہوگا جو دروازے کھڑکیوں سے دور کسی کونے میں ہوگا۔ ایسی جگہ مناسب ہوگی جو شدید دھچکے کی لہر اور شدید آندھی سے تحفظ دے سکے۔
حالیہ مہینوں میں عالمی طاقتوں میں تنائو کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں روس کے سابق صدر ’دمتری مدوادیو‘ نے کہا تھا ’’روس کے جنگ میں آزمائے ہوئے میزائل مغربی ممالک کے دفاعی حصار کو چکما دے کر آناً فاناً یورپی شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر ان میزائلوں کے وار ہیڈ ایٹمی ہوئے تو یورپ اس نقصان کا تصور بھی نہیں کر سکتا یہ نقصان ناقابل قبول ہو گا۔
ان میزائلوں کو مار گرانا آج کے جدید ترین دفاعی نظاموں کے بس کی بات نہیں، یہ سارا چند منٹوں کا کھیل ہے‘‘۔ روس نے پہلے ہی اپنی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کیلئے درکار خطرے کی شدت میں کمی کر دی ہے۔ اب اس میں یہ گنجائش پیدا کرلی گئی ہے کہ روس اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اگر مخصوص شدت کے روایتی ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
ایسے ممالک لوگوں کے لئے جائے پناہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ انٹاریکٹیکا ایٹمی تصادم کی صورت میں محفوظ ترین مقام ہوگا۔ یہ دنیا کے آخری کنارے پر واقع ہے۔ اس کی کوئی تزویراتی اہمیت نہیں اور یہ انتہائی وسیع و عریض علاقہ ہے۔ ہزاروں لوگ یہاں پناہ حاصل کرسکتے ہیں۔ آئس لینڈ جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا لیکن یورپ پر ہونے والے حملوں کے کچھ اثرات یہاں بھی پہنچیں گے۔ نیوزی لینڈ ایک تو غیر جانبدار ملک رہے گا دوسرا یہ کہ یہ ملک پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لئے ایٹمی اثرات سے محفوظ رہے گا۔