اسلام آباد:
غیر حقیقی اہداف کے باعث پاکستان60 کھرب روپے کے محصولات جمع کرنے کی آئی ایم ایف کی بنیادی شرط پوری نہ کرنے میں ناکام رہا، پہلی ششماہی میں مجموعی وصولیاں ہدف سے386 ارب روپے کم رہیں۔
اس دوران حکومت تاجر دوست اسکیم کے تحت 23.4ارب روپے جمع کرنے کا آئی ایم ایف کا ہدف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس وصولی کا رجحان ظاہرکرتا ہے کہ حکومت منی بجٹ کا مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف سے ہدف کم کرنے کی بات کرے۔
اعدادوشمار کے مطابق پہلی ششماہی کے 60.09 کھرب ہدف کے برعکس ایف بی آر نے دسمبر تک 56.23 کھرب ٹیکس جمع کیا، اس دوران وصولیوں کا شارٹ فال 386 ارب روپے رہا، تاہم یہ شارٹ فال ابتدائی تخمینوں سے کم ہے۔
اس دوران وصولیوں میں اضافہ40 فیصد کے بجائے 26 فیصد رہا، یوں ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کی نسبت 11.6کھرب روپے زائد وصول کئے، جوکہ پہلی سہ ماہی میں ایک فیصد سے کم شرح نمو اور8 فیصد افراط زر رکھنے والی معیشت کیلئے اگرچہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔
تاہم ٹیکسیشن کے حوالے سے حکومتی اقدامات اور غلط مفروضوں کی بنیاد پرطے 130 کھرب کے قریب سالانہ ہدف کی باعث حکام کو سخت دباؤکا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شارٹ فال کے باوجود رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں 275 ارب کا ری فنڈ ادا کیا گیا، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 234 ارب کا ری فنڈ دیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پہلی ششماہی کی وصولیوں کے جائزہ کے بعد پاکستان سے منی بجٹ کا کہنے کا فیصلہ کیا تھا، آئی ایف کی نظر میںبالواسطہ محصولات یعنی سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی کے اہداف کے حصول میں سنگین مسائل درپیش ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے دباؤپر حکومت نے بنیادی استعمال کی اشیاء بشمول سٹیشنری، بیکری آئٹمز اور میڈیکل ٹیسٹوں تک جنرل سیلز ٹیکس لگا دیا، جس سے سیلز ٹیکس مد میں 19کھرب کی وصولی ہوئی جوکہ گزشتہ سال کی اس مدت سے 25فیصد زائد مگر ہدف سے 179ارب کم ہے۔
اسی طرح ایف بی آر سمینٹ، لبریکینٹ آئل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈبل کرنے کے باوجودہدف سے 107ارب روپے کم وصول کئے، کسٹم ڈیوٹی بھی ہدف سے 156وصول کی۔