’’حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے‘‘ کے مصداق ہمارا ملک پاکستان اِس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، عدم تحفظ اور نوجوانوں (خصوصاً تعلیم یافتہ افراد) میں روزگار کے مواقع کی شدید کمی وہ بڑے مسائل ہیں جو قوم و ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
حالات اور مسائل کا رونا رونے کے باوجود یہی سب مسائل، نااُمیدی اور مایوسی ہمیں ایک موقع بھی تو فراہم کرتے ہیں کہ ہم ان کا حل نکالنے کےلیے نئی حکمت عملی اختیار کریں۔ آئیے ہم اپنے مسائل کا جائزہ لیں اور نئے سال کے لیے ایسے اقدامات پر غور کریں گے جو پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں، تاہم یہ کسی کےلیے بھی انفرادی سطح کا کام نہیں، خود بحیثیت قوم تصور کرتے ہوئے حکومت اپنے فرائض ادا کریں اور عوام مہذب شہری بن کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے مسائل کو بھول جائیں گے۔
1۔ معاشی بحران:
دہائیوں سے ہمیں یہی پڑھایا اور بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت سخت چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کا بوجھ، کرنسی کی گرتی ہوئی قدر اور تجارتی خسارہ شامل ہیں۔ ان مسائل نے عام آدمی کی زندگی کو نہ صرف بری طرح سے متاثر کیا ہے بلکہ اسے تقریباً زندہ درگور کردیا ہے۔ مہنگائی نے اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس حد تک بڑھا دی ہیں کہ متوسط طبقہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے عوض اپنی زندگی کے دنوں کا سودا کررہا ہے۔
ممکنہ حل:
ہم ایک زرعی ملک میں رہنے والے خوش قسمت لوگ ہیں۔ زرعی پیداوار میں بہتری کے ذریعے اس شعبے کو مثالی ترقی دی جاسکتی ہے، جس کا نتیجہ غذائی خودکفالت کی صورت میں مل سکتا ہے۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور کسانوں کو سستے (بلاسود) قرضے فراہم کرنا اس شعبے کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
صنعتی ترقی:
ملک میں صنعت کاری کو فروغ دینے کےلیے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ خاص طور پر چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار کو سہولت فراہم کی جائے۔ اسی طرح برآمدات بڑھانے کے لیے مقامی مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے اور نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جائے۔
مالی نظم و ضبط کے ذریعے بھی ہم معاشی طور پر مضبوط ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح حکومتی اخراجات میں کفایت شعاری کی جائے اور غیر ضروری درآمدات کو کم کیا جائے تاکہ روپے کی قدر میں اضافہ ممکن ہو۔
2۔ عالمی حالات کے پاکستان پر اثرات:
عالمی سطح پر اقتصادی تبدیلیاں خاص طور پر کورونا کے بعد دنیا بھر میں آنے والا بحران اور جغرافیائی سیاسی بحران بھی پاکستان کی معیشت پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ کووڈ 19 کے بعد پیدا ہونے والے مسائل، جیسے سپلائی چین کی رکاوٹیں، عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعات نے پاکستان کی معیشت کو دباؤ میں لے رکھا ہے۔
ممکنہ حل:
عالمی تجارت میں تنوع: پاکستان کو چاہیے کہ اپنی معیشت کے لیے صرف چند ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے متنوع عالمی شراکت داری قائم کرے۔ ساتھ ہی خطے (جنوبی ایشیا) کے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر معاشی ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔
عالمی ایندھن کا متبادل: معیشت میں بہتری اور مالی دباؤ سے نکلنے کےلیے ہمیں توانائی کے لیے متبادل ذرائع، جیسے شمسی اور ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی پر توجہ دیتے ہوئے ٹھوس، مؤثر اور قابل عمل پالیسی اختیار کرنیا ہوگی تاکہ عالمی قیمتوں کے اثرات کم سے کم ہوں۔
عالمی امداد اور سرمایہ کاری: ترقیاتی منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور عالمی مالیاتی اداروں سے شراکت داری کی جائے، تاہم اس میں ملکی مفاد اور نفع کی شرح کو اعتدال میں رکھ کر فیصلے کرنا ناگزیر ہیں۔ محض منصوبہ شروع کرنے اور اس کے سیاسی فوائد سمیٹنے کے روایتی تصورات سے نکل کر قوم کی اجتماعی بھلائی اور سہولت کو پیش نظر رکھ کر معاہدے کیے جائیں۔
3۔ نوجوانوں میں روزگار کے مواقع کی کمی
ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے (ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 65 فی صد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ) اور یہی ملک کی اصل طاقت ہیں، تاہم ضروری ہے کہ انہیں روزگار کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔
بدقسمتی سے بے روزگاری کی بلند شرح نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگا رہی ہے۔ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی اپنی صلاحیت کے مطابق ملازمتیں نہیں ملتیں، جس سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
ممکنہ حل:
نوجوانوں کو روزگار کے قابل بنانے کےلیے فنی تعلیم و تربیت فراہم کرنے اور انہیں ہنر سکھانے کے پروگرام شروع کیے جائیں۔ اسی طرح نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرانے کےلیے اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینا ہوگا، جس کے لیے حکومتی معاونت ناگزیر ہے، مثلاً بلاسود قرضے اور ٹیکسز میں چھوٹ دے کر انہیں آگے بڑھنے میں معاونت دی جا سکتی ہے۔
نئی نسل کو کاروبار کے جدید آن لائن پلیٹ فارمز کے استعمال پر راغب کرنا ہوگا۔ فری لانسنگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔
تعلیم اور کیریئر گائیڈنس بھی نوجوانوں کو محرک کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ حکومت کو سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں کیریئر کاؤنسلنگ پروگرام شروع کرنے کی پالیسی بنانی ہوگی تاکہ نوجوان بہتر تعلیمی اور پیشہ ورانہ شعبے منتخب کر سکیں۔
مختلف شہروں اور موزوں مضافاتی علاقوں میں خصوصی اقتصادی زونز بنائے جائیں تاکہ نوجوانوں کے لیے مقامی روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
4۔ نوجوانوں کی ترقی کےلیے حکومتی سطح کے اقدامات
تعلیمی اصلاحات: تعلیمی نصاب کو جدید دور کے عملی و علمی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ نوجوانوں کو زندگی میں درپیش چیلنجز کے لیے تیار کیا جا سکے۔
اسکالرشپ پروگرامز: مستحق اور ہونہار طلبا کےلیے اسکالرشپ پروگرامز متعارف کروائے جائیں تاکہ وہ مالی مشکلات کے بغیر اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں اور اس راہ میں کم از کم وسائل کو رکاوٹ نہ سمجھتے ہوئے ملک کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔
ہنرمندی کی تربیت: نوجوانوں کو ہنر سکھانے کےلیے خصوصی کورسز اور تربیتی مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اسی طرح صنعتوں، ہنرمندی کے مراکز اور تعلیمی اداروں کے درمیان شراکت داری قائم کی جائے تاکہ نوجوانوں کو عملی تربیت اور انٹرن شپ کے مواقع مل سکیں۔
ڈیجیٹل تعلیم و تربیت: نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتوں سے لیس کرنے کےلیے خصوصی پروگرامز چلائے جائیں تاکہ وہ عالمی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور نتیجے میں ملک کی معاشی حالت کو سہارا ملے۔
5۔ بجلی کے بحران کا حل:
پاکستان میں بجلی کا بحران عوام اور کاروبار سمیت پورے ملک کی معیشت کو شدید متاثر کررہا ہے۔ حد سے زیادہ لوڈشیڈنگ نے صنعتوں کی پیداواری صلاحیت کو خطرناک حد تک کم کر دیا ہے جس سے کاروبار کا پہیہ تقریباً رُک گیا ہے اور سرمایہ مارکیٹ سے غائب جب کہ عوام کی زندگی بھی اجیرن ہوچکی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے منفی اثرات نہ صرف کاروبار پر دکھائی دے رہے ہیں بلکہ گھروں میں اس بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی نئی نسل کو بھی تعلیم سے دور کررہی ہے۔
ممکنہ حل:
متبادل توانائی کے ذرائع: حکومت کو چاہیے کہ شمسی، ہوا اور بایو ماس جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دے۔ اسی طرح پانی سے بجلی کی پیداوار یعنی ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے ہائیڈرو پاور کو بڑھایا جائے۔
بجلی کی ترسیل میں بہتری اور اس کے نظام میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے نقصانات کو کم سے کم حد پر لایا جائے۔ ساتھ ہی عوام کو توانائی بچانے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے اور ایسے آلات کے استعمال کی جانب راغب کیا جائے، جن سے بچت ممکن ہو سکے۔
6۔ سیاسی بحران:
سیاسی عدم استحکام نے ایک جانب ملک میں نچلی سطح پر نفرت اور تقسیم پیدا کی ہے وہیں معاشی ترقی کو بھی تباہ کردیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تنازعات اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مثبت پالیسیاں بھی مؤثر طریقے سے نافذ نہیں ہو پاتیں۔ اس کے علاوہ کرپشن اور اداروں کی کمزوری بھی مسائل کو بڑھا دیتی ہے۔
ممکنہ حل:
حکومتی اداروں خصوصاً وہ محکمے جن کا عوا م کے ساتھ براہ راست تعلق ہے، کو خودمختار اور غیر سیاسی بنایا جائے تاکہ وہ قانون کے مطابق کام کر سکیں۔
سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے قومی سطح کا اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر قومی و ملکی ترقی کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔
تمام معاملات میں شفافیت لانے کے لیے ہر سطح پر کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسی طرح تمام حکومتی امور میں بھی شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔
7۔ نیا سال، نیا عزم
سالِ نو کے آغاز پر ہمیں اجتماعی طور پر عہد کرنا ہوگا کہ ہم خود اور ملک کو درپیش تمام مسائل کے حل کےلیے عملی اقدامات کریں گے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کو سمجھیں اور پاکستان کی ترقی کے لیے مثبت سوچ اپنائیں۔
خود کے لیے تجاویز:
1۔ تعلیم کو ترجیح دیں، اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرکے مستقبل کے معماروں کو خوددار، محفوظ، کارآمد اور بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔
2۔ تیزی سے بڑھنے والے ماحولیاتی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہمیں انفرادی سطح پر ماحولیات کو تحفظ دینا ہوگا، اس کے لیے نچلی سطح پر آگاہی مہم اور عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے معمولات کو ماحول دوست بنانا ہوگا۔ آلودگی و گندگی کو کم کرکے اور پودے (درخت) لگانے کے رجحان کو بڑھاوا دینا ہوگا۔
3۔ آئیے ہم عہد کریں کہ معاشرے میں بسنے والے تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اس کے لیے اصلاحاتی اور اصول بنا کر ان پر سختی سے عمل کیا جائے، کیوں کہ مستقبل اور یہ ملک ہمارا ہی تو ہے۔
4۔ روایتی اور ڈیجیٹل تعلیم کو فروغ دے کر عام زندگی سے لے کر ملکی معیشت تک ہر سطح پر ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں آج ہی کمر کسنا ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔