معیشت ’’اڑان ‘‘ بھرنے کو تیار

اہم اقتصادی اشاریوں میں اتار چڑھاؤ 2025 میں معتدل رہنے کی توقع ہے۔


ایڈیٹوریل January 02, 2025

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اُڑان پاکستان کا محور ’’ برآمدات پر مبنی ترقی‘‘ ہے، معاشی استحکام آگیا ہے، اب ہمیں گروتھ کے طرف جانا ہے، ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ہمیں کاروبار دوست ماحول بنانا ہوگا۔ پالیسی ریٹ کو مزید کم ہونا چاہیے، آج بھی میثاق معیشت کے لیے تیار ہیں۔

 درحقیقت اعداد و شمار ملک میں خاطر خواہ معاشی ترقی اور استحکام کو ظاہر کرتے ہیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت اور خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں، تاہم بند کاروباری سرگرمیوں کی بحالی کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے جس کے لیے شرح سود اور انرجی ٹیرف سے متعلق اقدامات کرنا ہوں گے۔

 بلاشبہ ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کے باقاعدہ آغاز کے بعد اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے مربوط منصوبے کی ضرورت ہے، تاکہ جامع پالیسی سازی کی جانب جایا جائے جو ملک کا مستقبل ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ایک فریم ورک پر عمل کرنا ہوگا جن میں وسائل کی دستیابی، وزارتوں کا آپس میں مل کر کام کرنا، انسینٹوائز کرنا یعنی بیوروکریسی کو خصوصی کام کے لیے ٹریننگ دینا، بیوروکریسی کو ٹیکنالوجی اور دیگر اسکل سیٹ دینا ضروری ہیں۔

اس تناظر میں منصوبے میں دی گئی ترجیحات پر عمل کیا جائے تو پاکستان کا شمار خوشحال ممالک میں ہو سکتا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کروانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لیے ادارہ جاتی انتظام جن میں وفاق و صوبوں کے مابین کوآرڈی نیشن اور سیاسی درجہ حرارت میں نمایاں کمی درکار ہوگی۔ معاشی صحت بہت ضروری ہے، جس کا انحصار فروری میں آئی ایم ایف کی قسط ملنے اور ملک کے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات پر ہے۔

ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے بورڈ میں امریکا کا بورڈ اہمیت کا حامل ہوگا۔درحقیقت کم شرح سود کے اثرات کثیر جہتی ہوں گے۔ یہ اخراجات اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گا، جس سے مجموعی طلب اور اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ سود کی کم شرح کاروباری اداروں کے لیے کریڈٹ تک رسائی، اپنے کاموں میں سرمایہ کاری اور اپنی پیداوار کو بڑھانے میں آسانی پیدا کرے گی۔ جیسے جیسے کاروبار بڑھیں گے، وہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے، بے روزگاری کو کم کرنے میں مدد کریں گے، تاہم ملکی نجی شعبہ شرح سود میں مزید کمی کا متمنی ہے۔ بینکوں کی شرح سود گھٹ کر جون 2025 تک مزید کم ہوکر 9 فیصد یعنی سنگل ڈیجٹ میں آ جانی چاہیے۔

ان شرحوں کو حاصل کرنے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کے درمیان مسلسل تعاون کی ضرورت ہوگی۔ایس ایم ایز کو ٹارگٹ سپورٹ فراہم کی جانی چاہیے جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حکومتیں مالی مدد کے ذریعے ایس ایم ایز کی مدد کر سکتی ہیں جس میں کم سود والے قرضے اور کریڈٹ گارنٹی، اسٹارٹ اپس اور اختراعات کے لیے گرانٹس اور سبسڈیز، ٹیکس میں چھوٹ اور سرمایہ کاری وینچر کیپیٹل فنڈنگ اور مائیکرو فنانس پروگرام کے لیے مراعات شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، آسان لائسنسنگ اور رجسٹریشن کے عمل، بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرنا، ٹیکس کی ہموار تعمیل، لچکدار لیبر قوانین اور صنعت سے متعلق مخصوص ضوابط کچھ دیگر اقدامات ہیں جن کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان کا کریڈٹ ٹو جی ڈی پی کا تناسب نسبتاً کم ہے، جو کم شرح سود کو موثر بناتا ہے۔

پاکستان میں کم شرح سود کے فوائد میں جی ڈی پی کی ترقی میں تیزی، ملازمتوں کی تخلیق، سرمایہ کاری میں اضافہ، معیار زندگی میں بہتری اور مسابقت میں اضافہ شامل ہے۔ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر پانچ فیصد پر آگئی ہے۔ پالیسی ریٹ کو 2025 میں آسانی سے 9 فیصد تک لایا جا سکتا ہے کیونکہ معاشی اعشاریوں میں بحیثیت مجموعی بہتری کے ساتھ کاروبار کی آسانی وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔

محض معاشی اشاریے اور آئی ایم ایف پیکیج کافی نہیں ہوں گے اور حکومت کو کاروبار دوست ماحول یقینی بنانا ہو گا تاکہ کاروبار اور برآمدات کو فروغ ملے اور ملک میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو۔

2024پاکستان کے لیے معاشی استحکام کا سال تھا۔ افراط زر میں کمی آئی، شرح تبادلہ میں معمولی بہتری آئی اور شرح سود تقریبا آدھی رہ گئی۔ اہم اقتصادی اشاریوں میں اتار چڑھاؤ 2025 میں معتدل رہنے کی توقع ہے۔ تاہم، یہ سال سیاسی طور پر چارج ہونے کا وعدہ کرتا ہے، خاص طور پر جغرافیائی سیاست کے لحاظ سے اور یہ تبدیلیاں لامحالہ پاکستان کی معیشت کو متاثر کریں گی۔ رواں ماہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم اقتدار میں آرہی ہے۔

معاشی ترقی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب مساوی ٹیکس کے کلچر کو فروغ دیا جائے، تاکہ ہر شہری، چاہے اس کی معاشی حیثیت کچھ بھی ہو، اپنی مناسب حصہ داری کرے۔ صرف تنخواہ دار اور درمیانی طبقے پر ٹیکس عائد کرنا نہ صرف ان پر دباؤ بڑھاتا ہے بلکہ ناانصافی اور ناراضگی کو بھی جنم دیتا ہے۔ تبدیلی کا حقیقی محرک اشرافیہ طبقہ ہے، جنھیں مثال قائم کرنی ہوگی۔ جب کاروباری افراد، زمیندار، اور پالیسی ساز اپنی ٹیکس ذمے داریوں کو شفافیت اور محنت کے ساتھ پورا کریں گے تو وہ ایک مثال قائم کریں گے، جو عوام میں وسیع پیمانے پر عمل درآمد کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

یہ نہ صرف ریاستی آمدنی میں اضافہ کرے گا بلکہ نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرے گا، اور سب کے لیے مساوی احتساب کا تصور مضبوط کرے گا۔ غیر ضروری سرکاری اخراجات کو کم کرنا ترقی کے لیے اہم ہے۔ وسائل کا غیر ضروری مراعات اور فضول منصوبوں پر ضیاع قومی خزانے پر بوجھ ڈالتا ہے اور عوامی مایوسی کو بڑھاتا ہے۔ سرکاری کاموں کو بہتر بنانا، غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا، اور وسائل کو تعلیم، صحت، اور انفرا اسٹرکچر جیسے اہم شعبوں کی طرف موڑنا معاشی ترقی اور استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔اسی دوران، غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا، سیاسی استحکام، ریگولیٹری شفافیت اور سیکیورٹی کو یقینی بناتے ہوئے، بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

پاکستان کی عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ شراکت داری کو انحصار کے بجائے شراکت داری کی سمت میں لے جانا چاہیے، جس میں استعداد بڑھانے اور معاشی خودمختاری پر زور دیا جائے۔داخلی سطح پر، توانائی کے بحران کو حل کرنا اشد ضروری ہے۔ بجلی کی غیر متوازن فراہمی نے صنعتی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کیا ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت ملک کا ایک بڑا اثاثہ ہے، جسے ابھی تک مکمل طور پر بروئے کار نہیں لایا گیا۔

معیاری تعلیم تک رسائی میں توسیع، نصاب کو عالمی رجحانات کے مطابق ڈھالنا اور تکنیکی و پیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دینا ضروری اقدامات ہیں۔ جامع انسداد دہشت گردی حکمت عملی، انٹیلی جنس شیئرنگ اور کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے داخلی سلامتی کو یقینی بنانا عوام اور بین الاقوامی برادری دونوں میں اعتماد کو بحال کرے گا۔ پڑوسی ممالک، خاص طور پر افغانستان اور بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مضبوط کرنا، علاقائی امن اور اقتصادی تعاون کے لیے ضروری ہے۔ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی عملی خارجہ پالیسی پاکستان کو جنوبی ایشیا میں استحکام فراہم کرنے والی قوت کے طور پر دوبارہ قائم کرے گی۔

قلیل مدتی طور پر، پاکستان کو حکومتی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کی بحالی ممکن ہو۔ شفاف احتساب کے نظام، سرخ فیتے کو کم کرنے اور ای گورننس اقدامات کے نفاذ سے کارکردگی میں اضافہ اور بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے گا۔

مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا ترقیاتی منصوبوں کو پسماندہ اور نظرانداز شدہ کمیونٹیز تک پہنچانے کو یقینی بنائے گا۔زراعت کے شعبے میں، جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جدید کاشتکاری تکنیکوں کا تعارف اور پانی کے انتظام کے مسائل کو حل کرنا پیداوار میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔ قلیل مدتی اقدامات جیسے کسانوں کے لیے سبسڈی اور وسائل کی موثر تقسیم فوری ریلیف فراہم کریں گے۔

عالمی سطح پر، پاکستان کو ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر اپنی شبیہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بناتے ہوئے افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا، اور لاطینی امریکا میں نئی شراکتوں کی تلاش سفارتی اور اقتصادی مواقع کو متنوع بنائے گی۔ عالمی فورمز میں فعال شرکت اور بین الاقوامی معاہدوں، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق جیسے شعبوں میں، پر عمل درآمد پاکستان کی ایک ذمے دار عالمی کھلاڑی کی حیثیت کو اجاگر کرے گا۔پاکستان کی طویل مدتی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہونا چاہیے، جو ایک وجودی خطرہ ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے مزاحم انفرا اسٹرکچر کی ترقی، موثر آفات کے انتظام کی حکمت عملیوں کا نفاذ، اور پائیدار شہری منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری ماحولیاتی چیلنجز کے اثرات کو کم کرے گی۔

ایسے اقدامات کے لیے بین الاقوامی تعاون اور گرین فنانسنگ کو یقینی بنانا ان کوششوں کو مزید تقویت دے گا۔سیاحت کی صنعت کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی، حفاظت کی یقین دہانی، اور مارکیٹنگ مہمات کے ذریعے زندہ کیا جا سکتا ہے، جو روزگار پیدا کرے گا، زرمبادلہ لائے گا، اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دے گا۔ بلاشبہ تمام مثبت اعشاریے اس بات کی گواہی ہیں کہ مل کر کام کر کے ہم پاکستانیوں کی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے اور پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں