خبر۔بلکہ خوش خبری تو آپ نے پڑھ بھی لی ہوگی اور دیکھ بھی لی ہوگی کیونکہ اچھی خوش خبری تھی۔ یوم انسداد بدعنوانی، عرف اینٹی کرپشن ڈے۔لیکن ہمیں ڈر ہے کہ پاکستان کے جاہل ان پڑھ اور عامی امی لوگ پڑھنے اور دیکھنے میں کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں۔اس لیے ذرا تشریحتے ہوئے بتا دیتے ہیں کہ ’’انسداد‘‘کو ’’امداد‘‘ نہ پڑھیں، یہ انسداد ہی ہے امداد بدعنوانی نہیں، یہ جو ’’اینٹی کرپشن‘‘ ہے یہ اینٹی کرنسی ہی ہے، ’’آنٹی‘‘کرپشن نہیں ہے۔
جہاں تک ’’یوم‘‘کا تعلق ہے اور جس کی جمع ’’ایام‘‘ ہوتی ہے اس سے ڈرنا بالکل نہیں چاہیے، ایک دن ہی کی تو بات ہے ایک دن تو انسان کھانے پینے کو بھی ترک کر سکتا ہے کیونکہ اس کے بعد دوسرا دن بھی تو آتا ہے صرف آج کا کام کل پر چھوڑنا کیا مشکل ہے اور انسان کے پاس اچھا خاصا چلتا ہوا ذہن بھی تو ہے۔
ہم نے جب اپنا تحقیق کا ٹٹو دوڑایا اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ یہ ’’ایام‘‘کا سلسلہ کب شروع ہوا ہے تو پتہ چلا کہ بنی اسرائیل نامی قوم تھی جس نے ’’یوم سبت‘‘ منایا تھا یعنی ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے کی ممانعت تھی۔ظاہر یوم کا تو احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔جیسے آج کل ان ’’ایام‘‘ میں ہوتا ہے، یوم ٹریفک کے دن ٹریفک والے واقعی ٹریفک والے ہوتے ہیں۔ ماؤں کے عالمی یوم پر ’’ماں‘‘ جنت کی ہوا بلکہ حوا ہوجاتی ہے۔
بچوں کی صحت کا عالمی یوم ہو تو اس دن کوئی استاد بچوں کو نہیں مارتا نہ ہی کوئی ڈاکٹر مارتا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ اس دن بیماریوں کے جراثیم کی بھی چھٹی کردی جاتی ہے۔اسی طرح اس بنی اسرائیل نامی قوم نے بھی یوم سبت پر مچھلیاں پکڑنا چھوڑ دیا تھا لیکن اب اچھے لوگ تو سارا دن بیکار بیٹھ سکتے نہیں کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ ؎
بیکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر
چنانچہ ان لوگوں نے اس ’’یوم سبت‘‘ کے دوران مچھلیاں پکڑنا تو چھوڑ دیں لیکن دریاکنارے بنائے ہوئے تالابوں کی طرف ان کو لے جانے کے طریقے اپنا لیے تھے۔سبت کے دن مچھلیاں تالابوں میں چلی جاتی تھیں اور اگلے دن پکڑلی جاتی تھیں۔ آگے کیا ہوا؟ آپ کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔اب یہ تو ہم معلوم نہیں کرپائے کہ انسانوں کے جد ان ایام کے لیے کیا کیا انتظامات کیے رکھتے تھے لیکن ایک افسر کے بارے میں جانتے ہیں وہ عمرے یا سالانہ دورے پر جاتے تھے تو ایک مہینہ پہلے سے اپنے کلائنٹوں سے اپنا کوٹہ پورا کرلیتے تھے اور پھر بعد میں بھی نرخ بڑھا دیتے تھے۔
ایک بات ہم اور معلوم نہیں کرپائے کہ یہ کرپشن کوئی بھوت تو نہیں کیونکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے جب صوبہ خیر پخیر میں پہلی انصاف دار حکومت بنی تو حلف اٹھانے کے تین منٹ بعد اس نے اعلان کیا کہ کرپشن ختم کردی گئی۔ لیکن دوسری حکومت کے وقت نہ جانے کیسے پھر آگئی تھی، دوسری حکومت نے اسے دوسرے منٹ میں ختم کردیا اورادھر ریاست مدینہ میں بھی اعلان ہوا کہ کرپشن کا مکمل خاتمہ کردیا گیا۔
اب ہم حیران ہیں کہ اس مرتبہ یہ بے شرم بے حیا ڈھیٹ کرپشن کس راستے اور کیسے آگئی کہ اس شفاف حکومت کی شفافیت پر دھبہ بن گئی۔لیکن خیر جانتی نہیں کہ اس مرتبہ ایسی ویسی حکومت نہیں آئی اس کے پاس ایسے ایسے مشیرو معاون ہیں کہ مسلسل بیانات سے کرپشن کا بلواڑہ کر دیں گے بلکہ لگتا ہے کہ کرچکے ہیں کیوںکہ ان کو سیٹ دینے کا مطلب ہی یہی ہے کہ دشمن کا خاتمہ قریب ہے۔اس سلسلے میں جو بڑا سا اشتہار اخباروں میں آیا ہے اورا س میں بڑوں کے جو بیانات آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ؎ف
لیلائے آب و رنگ کا ڈیرا قریب ہے
تارے لرز رہے ہیں سویرا قریب ہے
لیکن اس اشتہار میں ہم نے ایک عجیب بات بلکہ دو عجیب باتیں نوٹ کیں، ایک تو یہ کہ اس میں سپہ سالار یا مجاہد اعظم کی تصویر بھی نہیں اور اس کا اعلان یا پیغام بھی نہیں۔آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کس سپہ سالار کی بات کررہے ہیں جو بقول ہمارے سیفا دین جاپان کی طرح ہر محاذ پر لڑرہے ہیں اگر ایک طرف مرکز کی ناجائز حکومت پر اپنی توپ ڈز ڈزا رہے ہیں تو دوسری طرف مخالف صوبائی حکومت پر بھی رپیڈ ہورہے ہیں ایک طرف اگر صوبے میں پیراڈائزلاسٹ کی تعمیر کی خوش خبریاں ہیں تو دوسری طرف کرپشن،جرائم اور مجرم ان کی زد پر ہیں۔
لوگ بھی حیران ہیں یہ کیسی توپ ہے اور کس دھات کی بنی ہوئی کہ اس کی نالی بھی گرم نہیں ہورہی ہے اور اس اشتہار میں اس کا ذکر تک نہیں، شاید وجہ بہت زیادہ مصروفیت ہو۔البتہ ایک جگہ دوہاتھ ایسے دکھائے گئے کہ شاید یہ وہ ہی ہوں اور ’’کسی‘‘ کو تسلی دے رہے ہیں کہ ؎
تندیٔ باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
ہاتھوں کے انداز ہی تسلی اور اطمینان دلانے کے ہیں۔مخالفت یا دھمکی کے ہوتے تو’’مکے‘‘ کی شکل میں ہوتے ’’مک مکے‘‘ کے نہیں۔خیر جو کچھ بھی ہے ٹھیک ہے اور اشتہار میں عام لوگوں کو بھی کرپشن مٹانے میں مدد کے لیے کہا گیا،چنانچہ ہم بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حکومت کو نیک صلاح دیں۔اور ہماری صلاح یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔اگر آپ کرپشن کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے ’’انسداد دروغ‘‘ پر تھوڑی سی توجہ دیں۔وہ ایک کہانی بھی ہے کہ صرف جھوٹ نہ بولنے کی وجہ سے ایک شخص بہت بڑے بڑے گناہوں سے بچ گیا تھا۔