خیبر پختون خوا میں دیہی غریب کی تحریک (آخری حصہ)

بلاشبہ اس کتاب میں پختون خوا میں چلنے والی تمام تحریکوں کا معروضیت کے اصولوں کے مطابق جائزہ لیا گیا ہے۔


[email protected]

مصنف نے پشتو کے عظیم شاعروحریت پسند رہنما خوشحال خان خٹک کے بارے میں لکھا ہے کہ خوشحال خان نے بہلول لودھی اور شیرشاہ سوری کے جاگیرداری نظام کو سراہتے ہوئے وادئ سوات میں پشتونوں کے روایتی زمین کے نظام کو ناپسندیدگی سے دیکھا۔ بعدازاں وہ مغل سلطنت کے خلاف جدوجہد کے باوجود پیرو شان تحریک سے بھی نالاں نظر آئے۔

خوشحال خان نے مغل بادشاہ اکبرکی مدح سرائی کرتے ہوئے اس کے دورکو خوشحالی کا زمانہ کہا۔ معروف مؤرخ اولف کیرو نے لکھا ہے بنگش، توری اور اورکزئی قبائل میں روشنیہ تحریک سے متاثرہ لوگ ہی بعدازاں شیعہ کہلائے۔

 اس کتاب کے تیسرے باب ’’ تحریکیں اور طبقاتی پیچیدگی‘‘ کے عنوان سے سرتاج خان نے لکھا ہے کہ معروف پشتون دانشور افضل الرحیم معروف کا بیانیہ خدائی خدمت گار تحریک کی انفرادیت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ یہ تحریک صوبے کی دوسری تحریکوں کے برعکس دیہی علاقے سے اٹھی اور پھیلتی چلی گئی۔

باچا خان ایک سادہ بندہ جو بمشکل میٹرک پاس تھا اس نے دیہی تحریک کی قیادت کی۔ اس تحریک نے انگریزی استعمار اور بڑے جاگیرداروں اور وزارت کے کارندوں کو چیلنج کیا۔ کتاب کے باب 4 میں خطہ پختون خوا کے تعارف کے عنوان سے مصنف لکھتے ہیں کہ صوبہ پختون خوا کی سیاسی و تنظیمی تشکیل پر برطانیہ کے سکھ حکمرانوں اور کابلی حکمرانوں کے خلاف جنگوں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

خاص طور پر تین افغان جنگوں اور اس کے بعد مختلف معاہدوں کے مستقبل کی تشکیل نو ہوئی، یوں دریائے سندھ کے پار برطانوی مداخلت اور اقدامات نے ماضی سے یکسر مختلف سماجی، سیاسی و انتظامی نظام تشکیل دیا۔ افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان باؤنڈری کے تعین کی خاطر 1893 میں 240 کلومیٹر طویل لکیر ڈیورڈلائن کے نام سے بچھ گئی۔ اگرچہ یہ عملی طور پر ایک سرحدی باؤنڈری ہے لیکن 100 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس لکیر کو باقاعدہ بارڈر کی حیثیت دینے کا فیصلہ نہیں ہوا۔

کتاب کے باب 5 کے عنوان برطانوی ہند کے اقدامات اور قومی شعورکی آبیاری میں بتایا گیا ہے کہ کارل مارکس نے قدیم ہندوستانی سماج کی ایک اہم خصوصیت یعنی گاؤں کی سطح پر خود کفالت کو قرار دیا۔ گاؤں کی تمام تر ضروریات کافی حد تک مقامی سطح پر بھی پوری ہوجاتی تھیں۔ ہندوستان کے کئی علاقوں کی طرح پختون خوا میں بھی زمین کا نجی ملکیت میں ہونا اور سماجی طور پر پائی جانے والی امداد باہمی سے کام کرنا اس سماج کی اہم خصوصیات تھیں۔

پسماندگی کی وجہ سے صوبے میں پیداوار بمشکل مقامی ضروریات پوری کر پاتیں۔ فاضل پیداوارکی کمی اور عوامی مزاحمت کی وجہ سے ان علاقوں کو زیرِ انتظام رکھنا مہنگا اور مشکل بھی تھا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ انگریز سرکار نے ہندوستان میں نجی ملکیت 1793میں بنگال میں متعارف کرائی۔

دریں اثناء صوبہ پختون خوا میں نجی ملکیت کی بنیاد پر جاگیرداری کا نظام وجود میں آیا اور پنجاب کی طرح صوبہ میں انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصہ میں شروع کیا گیا جس کو بندوبست اراضی کہا گیا۔ کتاب کے باب 6 میں پختون قوم پرست تحریک کی سماجی و طبقاتی بنیادوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ مغل شہنشاہیت کی جگہ برطانوی استعمار نے لی تو پھر جن رہنماؤں نے پختون قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ان میں خان عبدالغفار خان ، کاکاجی، صنوبر حسین مہمند، عبدالصمد اچکزئی ان رفقاء میں سرفہرست ہیں۔

 سرخ پوش تحریک بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کے بعد ہندوستان اور خطہ میں پیدا ہونے والے حالات کے پس منظر میں چلنے والی تحریکوں سے اٹھی۔ اس کی ابتدائی قیادت تین تحریکوں سے متاثر ہوئی۔ ایک خلافت تحریک ہجرت تک دوسری رولٹ ایکٹ 1920کے واقعات اور سنہری روسی انقلاب 1917 کے بعد چلنے والی انقلابی تحریکیں تھیں۔ کتاب کے باقی ابواب میں پختون خوا میں چلنے والی دیگر سیاسی اور سماجی تحریکوں کا خوبصورت جائزہ لیا گیا ہے۔

اس آرٹیکل میں کتاب کے کچھ ابواب کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ باقی ابواب میں بھی پختون سماج کے بارے میں اہم معلومات درج کی گئی ہیں۔ سرتاج خان نے ریسرچ کے جدید طریقوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے یہ کتاب تخلیق کی ہے۔ انھوں نے ہر باب کے آخری ریفرنس کو جدید انداز میں پیش کیا ہے۔ بلاشبہ اس کتاب میں پختون خوا میں چلنے والی تمام تحریکوں کا معروضیت کے اصولوں کے مطابق جائزہ لیا گیا ہے۔

 کتاب کے باب 10 میں قیام پاکستان کے بعد سیاسی جدوجہد کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر خان صاحب کی اکثریتی صوبائی کانگریس وزارت کو مرکزی حکومت میں ضم کردیا گیا اور اقلیتی پارٹی مسلم لیگ کے صوبائی رہنما خان عبدالقیوم خان کو صوبہ کا نیا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔

خدائی خدمت گار تحریک نے اپنے مرکز واقع سردریاب (دریائے کابل پشاور کے قریب) 3 تا 4 ستمبر 1947 کوکانگریس سے قطع تعلق کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان سے مکمل وفاداری کا آغازکیا مگر پھر جولائی 1948کو خدائی خدمت گار تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی۔ مصنف نے لکھا ہے، اگرچہ باچا خان نے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی مخالفت کی تھی اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ پشتون علاقوں کی قسمت کے فیصلے کے لیے ریفرنڈم میں ایک تیسرے اسٹیشن پختونستان کو شامل کیا جائے جسے کراچی کی حکومت نے مسترد کردیا، لیکن تقسیم ہند کے بعد 1948 میں باچا خان نے نئے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ باچا خان گورنر جنرل محمد علی جناح سے ملے اور انھیں خدائی خدمت گار تحریک کے تعاون کے فیصلے سے آگاہ کیا، لیکن یہ ملازمت سے فارغ ہونے سے ایک دن پہلے بیرسٹر محمد علی جناح کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ دورہ پشاورکے موقعے پر یہ بات باورکرائی گئی کہ دفترکے بعد انھیں ہوٹل جانے پر باہر قتل کردیا جائے گا۔

حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنی جدوجہد کے ساتھ مل کر علیحدگی پسند تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث ہیں۔ گورنر جنرل کے حکم پر گورنر نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو وجہ بتائے بغیرگرفتار کرسکتی تھی۔ خدائی خدمت گار تحریک نے 12 اگست 1948 کو چارسدہ میں باجڑہ کے مقام پر ایک جلسہ کا اہتمام کیا۔ عدم تشدد کے پیروکار جمع ہوئے۔

پولیس نے گولی چلائی جس سے 60 افراد مارے گئے اور 1200 سے 1500 کے درمیان زخمی ہوئے۔ سابق پاکستانی سفیر رستم شاہ کا کہنا ہے کہ بہت سارے زخمی جان بچانے کے لیے بھاگے تو دریائے کابل کی نذر ہوگئے۔ مصنف نے اس باب میں 1970کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی کی کامیابی، سرحد اور بلوچستان میں حکومتوں کے بننے اور بھٹو حکومت کی جانب سے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی جیسے واقعات کا بھی احاطہ کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں