اپریل 2022 میں جب میاں شہباز شریف پی ڈی ایم کی حکومت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تو قوم کو بتایا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ملک کی معیشت تباہ کردی ہے اور سابق حکومت کی بیڈ گورننس، وزیر اعظم کی من مانیوں اور غلط فیصلوں سے ملک میں مہنگائی بڑھی، بجلی و گیس کی بڑھتی قیمتوں سے عوام کا جینا اجیرن کیا گیا اور حکمرانی ختم ہو جانے کا یقین ہو جانے کے بعد وزیر اعظم نے بجلی کی قیمتیں اور پٹرولیم مصنوعات میں عوام کو ریلیف دے کر آئی ایم ایف کو ناراض کردیا۔
جہاں سے مزید قرض نہ ملا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا اور ملک کے جو معاشی حالات ہیں ان میں بہتری کے لیے آئی ایم ایف کی خوشامد کرنا پڑے گی اور دوست ممالک سے بھی قرضے اور امداد لینا پڑے گی جس کے بعد حکمرانوں اور ان کے وزیروں نے غیر ملکی دورے شروع کیے تھے جو اب تک جاری ہیں۔
2022 میں ملک میں تباہ کن بارشوں سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے جن کی تلافی کے لیے پاکستان نے دنیا بھر سے امداد لینی شروع کی جس میں عطیات کے اعلانات بھی عالمی سطح پر ہوئے مگر امداد بہت کم ملی اور حکومتی توقعات پوری نہیں ہوئیں جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم حکومت نے عوام کو نشانہ بنایا اور عوام پر مہنگائی مسلط کردی، جس سے عوام کی جھکی ہوئی کمر مزید ایسی جھکی کہ عوام اٹھنے جیسے بھی نہیں رہے اور حکومت ان اقدامات کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو ٹھہراتی اور خود اپنے شاہانہ اقدامات سے ملک کو مزید مقروض کرتی رہی اور حکمرانوں نے فخریہ کہا کہ ہم نے اپنی سیاست داؤ پر لگا کر ریاست بچا لی اور ملک کو دیوالیہ نہیں ہونے دیا اور ملک کی معیشت بہتر ہونے لگی ہے جس پر اپوزیشن ہی نہیں بلکہ اہم حکومتی حلیف بلاول بھٹو بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر معیشت بہتر ہو رہی ہے تو مہنگائی کیوں کم نہیں ہو رہی اور عوام کو ریلیف کیوں نہیں مل رہا؟
پاکستانی عوام میں پی ٹی آئی وزیر اعظم کی ایک سادگی ضرور یاد رہے کہ انھوں نے امریکا سمیت جن ممالک کے دورے کیے تھے وہ ہر جگہ قومی لباس میں گئے اور وہ کہیں بھی سوٹ میں نظر نہیں آئے اور موجودہ وزیر اعظم اظہار تعزیت کے لیے یو اے ای بھی سوٹ پہن کر گئے تھے اور ملک کی کسی بھی تقریب اور سعودی عرب کے دورے پر بھی مقروض ملک کے وزیر اعظم اور ان کے وزرا قیمتی سوٹ پن کر ہی گئے اور بطور حکمران وہ ہر جگہ سوٹ میں ہی نظر آئے۔
پاکستان اس وقت مشکل ترین صورت حال سے گزر رہا ہے جس میں جنم لینے والا ہر بچہ لاکھوں روپے کے قرض میں مقروض پیدا ہو رہا ہے جہاں عوام کو سادہ کپڑے تو کیا دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر آ رہی ہے مگر دنیا بھر کے مقروض ملک پاکستان میں وہاں کے شاہانہ انداز میں حکمرانی کرنے والے عوام سے لاتعلق حکمرانوں کو اپنے عوام کی نہیں بلکہ اعلیٰ ججز، وزیروں اور ارکان اسمبلی کی زیادہ فکر ہے جن کی تنخواہوں اور مراعات میں ماہانہ لاکھوں روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور حیرت یہ ہے کہ پہلے سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں اور بے تحاشا مراعات لینے والے کسی ایک جج نے بھی شاہانہ حکمرانی کرنے والے حکمرانوں کے اس فیصلے پر اعتراض یا مزید مراعات لینے سے انکار نہیں کیا کہ جس ملک کے عوام بے روزگاری سے خودکشیاں کر رہے ہیں اور مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور ملک کے جوان روزگارکے حصول کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اپنا ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں۔
عوام میں یہ بھی سوچ ابھر گئی ہے کہ وہ صرف ٹیکس دینے کے لیے ہیں اور انھیں نچوڑ کر جو اضافی ٹیکس جبری وصول کیے جا رہے ہیں وہ خود اس کے حق دار نہیں بلکہ پہلے سے بے تحاشا مراعات و بھاری تنخواہیں لینے والے ججز اور ارکان اسمبلی ہیں جو پہلے سے ہی انتہائی خوشحال ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم وزیر اعلیٰ تھے تو خادم اعلیٰ کہلاتے تھے مگر اب ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے محض دعوے اور طفل تسلیاں اور ججز اور اپنوں کو دینے کے لیے قومی دولت موجود ہے جو مسلسل لٹائی جا رہی ہے اور عوام بھوکے مر رہے ہیں جن کی کسی کو فکر نہیں۔