پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد ہے۔ اس سرحد کے آر پار بسنے والے رنگ، نسل، تہذیب و تمدن، بود و باش، رہن سہن، زبان، ثقافت، لباس، مذہب و عقیدے کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔ افغانوں اور پاکستانیوں کے اس تہہ در تہہ رشتوں اور مشترکات کے باوجود دشمنوں کی سازشوں کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات ماضی میں بھی ناخوشگوار رہے مگر اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے آج وہ اپنے بگاڑ کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔
اسلام دشمن قوتیں ہمہ وقت دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں کو پروان چڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 1947 سے 1979 کے دوران پاک افغان تعلقات ناخوشگوار اور مسائل سنگین تھے، اس دوران چھ سات سال تو دونوں ملکوں کے تعلقات کلی طور پر معطل رہے۔ مگر دوسری طرف افغانستان کے مذہبی طبقے نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھا کیونکہ 100فیصد افغان طالبان پاکستان کے مدارس سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ آج بھی امارت اسلامیہ افغانستان کے 80 فیصد ذمے داران پاکستانی مدارس سے پڑھے ہیں۔ خود میرے باباجان ڈاگئی باباجیؒ کے بلاواسطہ اور بلواسطہ سیکڑوں شاگرد امارت اسلامیہ افغانستان حکومت کے ذمے داران میں شامل ہیں۔
افغانستان پرسوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عوام نے مل کر افغانستان کی آزادی کے لیے جو دلیرانہ کردار ادا کیا اس سے دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے کے قریب آئے۔ پاکستانی قوم نے تاریخ کی اس بڑی ہجرت، جس میں 30 لاکھ سے زیادہ افغان بے گھر ہوئے، کے دوران ایسے ایثار کا جذبہ پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اور آج بھی پاکستان اپنے ان افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کررہا ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عوام نے روسی بربریت کے خلاف جنگ اپنی جنگ سمجھ کر لڑی اور سوویت یونین کو افغانستان سے بے دخل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، ہزاروں پاکستانی جہاد افغانستان میں شہید اور زخمی ہوئے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے دنیا کی دوسری سپر طاقت سوویت یونین کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ پاش پاش ہوگئی۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے پہلے امیر ملا محمد عمر مجاہدؒ کی قیادت میں طالبان حکومت نے جو انقلاب برپا کیا تھا اس پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور قوم نے باقاعدہ جشن منایا اور ہر دل سے امارت اسلامی افغانستان کے لیے ناصرف دعائیں نکلتی تھیں بلکہ انھیں ہر ممکن تعاون پہنچانے کی آرزو اور کوشش بھی رہی۔
حکومت پاکستان نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے امارت اسلامی افغانستان کو سپورٹ کیا اور ان کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کیے اور پہلی بار افغانستان میں پاکستان دوست حکومت قائم ہوئی، ملا محمد عمر مجاہدؒ کے دور حکومت میں دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات مثالی ، تاریخی اور ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے جذبوں سے معمور تھے۔
نائن الیون کی من گھڑت امریکی سازش کے باعث دونوں برادر اسلامی ملکوں کے تعلقات کو شدید دھچکا لگا اور اسی دوران سابق آمر پرویز مشرف کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے دوریاں اور غلط فہمیاں پیدا ہو گئی۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کرکے ملامحمد عمر کی حکومت کا خاتمہ تو کیا مگر افغان عوام کے دلوں سے امارت اسلامیہ افغانستان کی محبت کو نہیں نکال سکا۔
امریکی بیساکھیوں پر کھڑی حامد کرزئی کی کٹ پتلی حکومت کا جھکاؤ پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت کی طرف رہا تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں واضح دراڑ پیدا ہوگئی۔ احسان فراموش حامد کرزئی (جس نے تعلیم اور رہائش پاکستان میں حاصل کی) نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر پاک افغان تعلقات کو بگاڑا۔ اشرف غنی نے اپنے پیش رو اور سابقہ سیکولر حکمرانوں کی پالیسیوں کو دوام بخشا اور پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا اوردونوں ممالک کے درمیان اخوت کے جذبوں سے معمور تعلقات کو ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر لے گئے۔
امریکی قیادت میں نیٹو فورسز نے جو آگ افغان سرزمین پر لگائی تھی 2021میں امریکی انخلا کے بعد بھی پاکستان اس میں تاحال جل رہا ہے۔ انخلاء سے پہلے امریکا نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جدید اسلحہ اپنی پروردہ دہشت گرد تنظیموں کو دیا تاکہ وہ امارت اسلامیہ افغانستان کے علاوہ پاکستان کے لیے بھی درد سر بننے کے ساتھ پاک افغان تعلقات کے بگاڑ کا باعث بنے رہیں۔
آج وہی داعش اور ان کی ہمنوا دہشت گرد تنظیمیں اس اسلحے کو پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں استعمال کرتے ہوئے پاک افغان تعلقات کو برباد کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ 20 سال تک افغان طالبان امریکی جارحیت اور قبضے کے خلاف برسرپیکار رہے، مگر پاکستان نے افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء اور امریکا طالبان مذاکرات کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کر کے اپنا حق ادا کیا۔
اگست 2021 میں امریکی افواج کے انخلاء اور امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام پر پاکستانی قوم نے اطمینان کا اظہار کیا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ طالبان کے امیر المومنین ملاہیبت اللہ اخوند زادہ کی قیادت میں امارت اسلامی افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک بار پھر اخوت اور احترام کے رشتوں سے معمور تعلقات استوار ہونے کے ساتھ پاکستان میں دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ مگر مکار دشمن کی سازشوں کی وجہ سے جہاں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ وہاں افغانستان میں بھی داعش نے امارت اسلامیہ کے ذمے داران اور علمائے کرام کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
2024 میں ہزاروں پاکستانی خود کش دھماکوں میں شہید ہوئے، اسکول، کالج، مساجد، عوامی اجتماعات، مذہبی اجتماعات، چیک پوسٹیں، ریلوے اسٹیشن ہرجگہ دہشت گردوں نے بے گناہ مسلمانوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا کر خون کی ہولی کھیلی۔ دہشت گرد تنظیمیں ایک طرف پاکستان میں خون کی ہولی کھیل رہی ہیں تو دوسری طرف امارت اسلامیہ افغانستان کے ذمے داران کو بھی اپنے نشانے پر رکھنے کے لیے بڑی مکاری کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کردیا۔
21 دسمبر 2024 کو جنوبی وزیر ستان میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 16 فوجی جوان شہید ہوئے تو ردعمل میں افواج پاکستان نے سرحد پار پکتیکا میں موجود دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا، میڈیا کے مطابق اس حملے میں کئی کمانڈروں سمیت 71 سے زائد دہشت گرد مرنے، خودکش جیکٹ بنانے والی فیکٹری، میڈیا سیل اور 4 تربیتی مراکز تباہ کرنے کی اطلاع ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے اس حملے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا، افغانستان میں تعینات پاکستان کے سفارتکار کو طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے علاوہ افغان وزراء کی جانب سے جوابی حملے کی دھمکی دی گئی تو حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ دونوں برادر اسلامی ممالک تباہی اور بربادی کے راستے پر گامزن ہیں۔
عالم کفر سے پاکستان کا ایٹم بم اور میزائل پروگرام ہضم ہورہا ہے نہ مولانا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی قیادت میں امارت اسلامیہ افغانستان کی ترقی اور استحکام۔ وہ خائف ہیں کہ اگر پاکستان اور افغانستان حقیقی معنوں میں ایک ہوگئے تو اس خطے کا نقشہ بدلنے کے لیے کافی ہوگا اس لیے وہ کبھی بھی دونوں ملکوں کو متحد ہونے نہیں دیں گے۔ دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کو ہوش کے ناخن لے کر عالم کفر کے جال سے بچنا چاہیے اور ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر تمام مسلمان دشمنوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔
مسائل حقیقت بن کر سامنے کھڑے ہیں، جن سے نہ پاکستان نظریں چرا سکتا ہے اور نہ افغانستان۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھیں اور بلا تاخیر مذاکرات کی میز سجا کر اخوت اور قربانی کے جذبوں سے معمور حل تلاش کرکے عالم کفر کی پلاننگ اور خواب چکنا چور کر دیں۔ اس مشن کو اگر امارت اسلامیہ افغانستان کے ذمے داران کے اساتذہ اور مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے کیا گیا تو انشاء اللہ بہت جلد دونوں برادر اسلامی ممالک ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں گے۔