تبدیلی کی تیاری

محرومیوں سے نجات کا واحد ذریعہ وہی دکھایا جاتا ہے جسے تبدیلی کا مہرہ بنانا مقصود ہوتا ہے


اکرم ثاقب January 02, 2025

حکومتوں اور حکومتی نظام اور حکومتی ادوار میں تبدیلی اور انقلاب لانے کےلیے کچھ اور چہرے استعمال کیے جاتے ہیں پھر اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ ایسے کردار تخلیق کیے جاتے ہیں، ایسے چہرے تراشے جاتے ہیں جنہیں عوامی خواہشات کا چہرہ مہرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ 

انہیں دیومالائی کردار بنا کر سامنے لایا جاتا ہے اور بھیڑ چال چلنے والے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بس یہی کردار تمہارے دکھوں کا مداوا ہے۔ اگر اس وقت تم نے اس کا ساتھ نہ دیا تو پھر تم کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکتے جو تم چاہتے ہو۔ (اور یہ خواہشات ان محرومیوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو ہر ملک میں جان بوجھ کر عوام کا مقدر بنائی ہوئی ہوتی ہیں۔)

ان محرومیوں سے نجات کا وہی واحد ذریعہ دکھایا جاتا ہے جسے تبدیلی کا مہرہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہی مفاد پرست اشرافیہ لگا دی جاتی ہے جو ابتدائے سیاست سے ایسے ہی کاموں کےلیے پیدا کی گئی۔ جہاں جہاں برطانیہ کی حکومت رہی ہے وہاں وہاں یہ طبقہ اشرافیہ انتہائی ڈھٹائی سے سالہا سال سے اپنا کام کرتا چلا آرہا ہے۔ اور برطانیہ میں بذات خود یہ اشرافیہ سب سے پہلے موجود تھی۔

ماضی کی عالمی تاریخ اور تبدیلیوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو واضح نظر آئے گا کہ تبدیلی لانے والوں کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ اسے ہر ملک کی مناسبت سے اور ہر علاقے کے حوالے سے مختلف ناموں سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس اور روس کا کمیونسٹ انقلاب اور پھر جمہوریت کا نام پر تبدیلی، ایسی تبدیلیوں کے ابتدائی تجربات میں شامل ہیں۔ پھر 2010 سے عرب ممالک میں عرب اسپرنگ کا نام دے کر عرب ممالک میں بدامنی افراتفری اور بغاوتیں پھیلا کر بہت سارے ممالک میں حکومتیں تبدیل کردی گئیں۔

تبدیلی لانے والے باغیوں کےلیے یہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ وہ چند دنوں یا چند مہینوں کےلیے وہاں حکومت کرسکیں اور اپنے نام نہاد ارفع نظریات کو لاگو کرسکیں۔ تبدیلی لانے والوں کے سرپرستوں کا تبدیلی کے عین اگلے لمحے یہ سوال ہوتا ہے کہ اب کس کی حکومت بنائی جائے۔ تبدیلی تو وہ لے آئے ہیں اب آگے کیا ہوگا؟

تاریخ بتاتی ہے کہ تبدیلی کے بعد تشدد کی نئی شکلوں نے ایسے تمام ممالک کے سیاسی مستقبل کو خطرہ میں ہی ڈال کے رکھا ہے۔ جابرانہ حکومتوں کی ناانصافیاں اکثر بغاوت کو تحریک دیتی ہیں۔ حریف مسلح گروہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مشترکہ مقصد کےلیے مل کر کام کرتے ہیں، مگر اس کے بعد، سیاسی مستقبل پر غیر یقینی صورتحال پیدا کردی جاتی ہے کیونکہ ان سے اتنا ہی کام لینا ہوتا ہے کہ اپنی پالیسی کو آگے بڑھانے کےلیے اس ملک کی حکومت کو گرانا ہوتا ہے اور اسے کمزور کرنا ہوتا ہے، اس طرح پشت پناہی کرنے والی قوتیں ہی سابق اتحادیوں کا اتحاد قائم نہیں رہنے دیتیں۔

اختیارات کی عدم موجودگی اور لاقانونیت کی وجہ سے تشدد کی نئی شکلیں مقامی جنگوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ ہر دھڑا اپنے آپ کو بہترپوزیشن میں لانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قومی سطح پر لوٹ کھسوٹ کا بہار کا موسم شروع ہوتا، نہ کوئی حکومت نہ کوئی احتساب۔ مزید یہ کہ کمزور دھڑے وفاداریاں بدلنے کا شکار ہوتے ہیں تاکہ جیتنے والے کے ساتھ مل کر فائدے اٹھائیں۔

ان تمام بغاوتوں اور تبدیلیوں کے بعد ان ممالک میں باغیوں کے جتھے اور گروہ خود کو ایک سیاسی خلا مین معلق کرکے صرف اپنے اپنے ملک کو کمزور کرنے میں ہی کامیاب ہوئے۔ وہاں امن قائم ہونے کے بجائے تشدد اور بڑھ گیا۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں اور حالیہ مثال شام کی ہے۔ شام سے پہلے کئی عرب ممالک اسی تبدیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔

مصر، تیونس، لیبیا، سوڈان ،لبنان، یمن، عراق، میں تو اس تباہ کن تبدیلی کے کامیاب تجربات کیے جاچکے ہیں۔ لیبیا میں، باغی قوتوں کے اتحاد، جسے نیشنل ٹرانزیشن کونسل کے نام سے جانا جاتا ہے، نے 2011 میں معمر قذافی کی حکومت کو شکست دی تھی لیکن عبوری حکومت میں سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے مقابلے کی وجہ سے متشدد حریف بن گئے۔

ایدی امین کے یوگنڈا میں، 1979 میں ہمسایہ ملک تنزانیہ میں بنائے گئے اتحاد مشترکہ فوجی مہم نے تبدیلی پیدا کردی اور ایدی امین کی یوگنڈا میں حکومت ختم کروا دی۔ وہ حلیف بھی حریف بن گئے۔ ایتھوپیا میں بھی یہی فارمولا اپنایا گیا تھا۔ ایسا ہی کچھ جنوبی سوڈان میں کروایا گیا۔ تنازعے کو طویل عرصے سے نسلی نوعیت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا جب کہ ایسا مکمل طور پر نہیں تھا۔ ملک کے دو بڑے نسلی گروہوں، ڈنکا اور نیور تھے۔ دونوں نسلی گروہوں سے وقت کے ساتھ ساتھ وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک لیڈر کو فائدہ ہوتا تھا۔ تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت بھی تناؤ کا شکار ہی رہتی ہے۔

شام میں بھی اب ویسے ہی حالات پیدا کیے جارہے ہیں۔ شام میں مسلح گروہ پہلے بھی ایسے رجحانات دکھا رہے ہیں۔ ملٹری آپریشنز کمانڈ جو کہ شامی اپوزیشن گروپوں کا اتحاد ہے جس نے اسد کی حکومت کو گرایا ہے اب برائے نام رہ گیا ہے۔ سب سے بڑا گروپ حیات تحریر الشام بذات خود کم از کم چار الگ الگ ملیشیاؤں کا ایک مجموعہ ہے، جب کہ ترکی اور امریکا کی حمایت یافتہ سابقہ اتحاد وقت کے ساتھ ساتھ متحد ہوتے اور بکھر رہے ہیں۔

ایچ ٹی ایس کے رہنما احمد الشارع نے عہد کیا ہے کہ تمام باغی دھڑوں کو ’’منتشر کر دیا جائے گا اور تربیت یافتہ جنگجوؤں کو وزارت دفاع کی صفوں میں شامل کیا جائے گا‘‘۔ لیکن تبدیلی کی تاریخ کی روشنی میںان بلاکس میں سے ایک حریف سامنے لایا جائے گا جو اس سرپرست کےلیے کام کرے گا جس کی پشت پناہی سے یہ سب تباہی برپا کی گئی۔

کسی بھی صورت میں شام میں حکومتی استحکام کا امکان نظر نہیں آتا۔ تبدیلی لانے والا ہر گروپ اب اپنی اجارہ داری چاہ رہا ہے اور ملک کو تبدیلی کے پھل سے کافی عرصہ تک مستفیذ کیا جاتا رہے گا جب تک کہ سرپرستوں کے مقاصد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔

شام میں صورتحال بے قابو ہے، جس میں بڑے پیمانے پر بے گھر ہونا، شہری نقصانات اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے۔ اسد کے خاتمے سے پیدا ہونے والا طاقت کا خلا مختلف گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم استحکام اور دوبارہ جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ جاری انسانی بحران مزید خراب ہوسکتا ہے، جس میں بے گھر ہونا، بنیادی خدمات تک رسائی کی کمی اور وسیع پیمانے پر صدمہ شامل ہے۔ تنازعہ علاقائی کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے، خاص طور پر اسرائیل اور ایران کے درمیان۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں