اسرائیل 911 سے کیوں محفوظ ہے

اسرائیل نے غزہ میں حالیہ آپریشن کے دوران شہری آبادیوں پر فضائی حملوں کے ذریعے آٹھ سو سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

اسرائیل نے غزہ میں حالیہ آپریشن کے دوران شہری آبادیوں پر فضائی حملوں کے ذریعے آٹھ سو سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔ اقوام متحدہ اور جنیوا کنونشن کے تحت کسی بھی جنگ کے دوران بے گناہ سویلین آبادی پر فضائی حملے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام جنگی جرائم کی تعریف میں آتا ہے اور جنگی جرائم جنگی تاریخ کے سب سے بڑے جرائم میں شمار ہوتے ہیں جس کی سنگین سزائیں مقرر ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جن جرمن فوجیوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا، ان کے خلاف آج تک کارروائیاں جاری ہیں اور ان جرائم کے مرتکب مجرموں کو آج بھی دنیا بھر میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔

مہذب دنیا جنگی جرائم کے مرتکب افراد سے سخت نفرت کرتی ہے، حیرت کی بات ہے کہ عالمی جنگوں میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے جرمنوں کو تو اب بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر سزائیں دی جا رہی ہیں لیکن عالمی جنگوں کے جنگی جرائم سے زیادہ بدتر جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کے بجائے امریکا اور اس کے حلیف اس کی حمایت یہ کہتے ہوئے کر رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ پر فضائی حملے اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔

اس حوالے سے حماس پر الزام ہے کہ وہ اسرائیل پر راکٹ پھینک رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عالمی میڈیا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ حماس کے راکٹوں سے اسرائیل کا کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کے قانون اور جنیوا کنونشن سب ایک ایسے ڈرامے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا مقصد مغرب کے منظور نظر ممالک کو قتل عام کی آزادی دینا اور پسماندہ ملکوں کو ان جانبدارانہ قوانین سے ڈرا کر رکھنا ہے۔

اس حقیقت سے ساری دنیا واقف ہے کہ مشرق وسطیٰ پر اسرائیل کو ایک عالمی قوانین اور اخلاقیات سے آزاد ملک کی طرح مسلط کرنے کا ایک مقصد مشرق وسطیٰ کے تیل پر مغرب کی اجارہ داری کو برقرار اور مضبوط رکھنا ہے اور دوسرا مقصد مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو مغربی ملکوں سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے پر مجبور کرنا ہے اسرائیل کی بقا کی بات ایک ڈھونگ کے علاوہ کچھ نہیں۔

سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دنیا کے 57 مسلم ملکوں کے حکمران اسرائیل کے ان وحشیانہ مظالم کے خلاف زبانی جمع خرچ مذمتی بیانات اور اظہار تشویش کے علاوہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں جن میں مسلم ملکوں کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان بھی شامل ہے۔ کیا مسلم ملکوں کی اجتماعی طاقت اسرائیل کی جارحیت روکنے کے لیے ناکافی ہے؟


ایسا نہیں ہے بلکہ مسلم ملکوں کا حکمران طبقہ جن کے مفادات امریکا اور مغربی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے عملی اقدامات کرکے امریکا اور مغربی ممالک کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک فلسطینی عربوں کے مسلسل ہونے والے اس قتل عام پر خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں، سعودی عرب جیسا ملک جو مسلمانوں کے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، وہ بھی خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہے، اور امریکا اور مغربی ملکوں سے خریدا ہوا کھربوں ڈالر کا جدید اسلحہ عرب ملک کے گوداموں میں اسی طرح سڑ رہا ہے جس طرح پاکستان کے نندی پور پراجیکٹ کی اربوں ڈالر کی مشینری کراچی کی بندرگاہ پر سڑتی رہی ہے۔

مسلم ملکوں کے اجتماعی مسائل کے حل اور ان کے تحفظ کے لیے مسلم ملکوں کی ایک تنظیم موجود ہے جس کا نام نامی اسم گرامی ''او آئی سی'' ہے اس کی کارکردگی دیکھ کر ہر مسلمان کی زبان سے ''او آئی سی'' نکلتا ہے۔ یہ تنظیم سارے مسلم ملکوں کی نمایندگی کرتی ہے اگر یہ تنظیم چاہے تو اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کا اعلان کرسکتی ہے لیکن یہ تنظیم عملاً امریکا کی بی ٹیم اسی طرح بنی ہوئی ہے جس طرح مسلم ممالک اور اقوام متحدہ امریکا کی بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ مسلم ملکوں کے حکمران طبقات کے مفادات ہیں جو انھیں اسرائیل مظالم کے خلاف عملی اقدامات سے روک دیتے ہیں یہی وہ کمزوری ہے جو 57 مسلم ملکوں کو اسرائیل کے سامنے سر اٹھانے سے روکتی ہے۔

اس حوالے سے سب سے حیرت انگیز کردار ان مذہبی انتہا پسند تنظیموں کا ہے جو ساری دنیا پر اپنا پرچم لہرانا چاہتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کا خون تو پانی کی طرح بہا رہی ہیں لیکن ایک کٹر مذہبی ملک اسرائیل کے خلاف نہ کسی خودکش بمبار کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں نہ کوئی بارودی گاڑی اسرائیل بھیجنا ضروری سمجھتی ہیں جب کہ آئے دن اسرائیل فلسطینی بستیوں پر وحشیانہ حملے کر رہا ہے اور بے گناہ فلسطینی بچوں، بوڑھوں، مرد اور خواتین کو قتل کر رہا ہے۔ پاکستان میں 50 ہزار بے گناہ مسلمانوں کو اور عراق ، شام، افریقہ میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو وحشیانہ انداز میں ہر روز قتل کرنے والوں کو اسرائیل کے فلسطینیوں پر ہر روز ہونے والے مظالم کیوں نظر نہیں آتے۔

امریکا سمیت مختلف مغربی ملکوں روس، چین، بھارت میں کامیابی سے دہشت گردانہ حملے کرنے والے ان دین کے حامی دینداروں کو فلسطین کے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیوں نظر نہیں آتا؟ اس حوالے سے مسلم ملکوں کے حکمرانوں کے کردار سے مذہبی انتہا پسندوں کا کردار کیا مختلف ہے؟ اگر مختلف نہیں ہے تو اس کی وجہ کیا ہے۔ یہ سوال فطری طور پر مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے اور جواب یہی آتا ہے کہ یہ دہشت گرد امریکا اور مغرب کے ایجنٹ ہیں جن کا واحد تعصب بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنا اور مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو کمزور کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار کرنا ہے۔

57 مسلم ملکوں کو چھوڑیے فلسطینی عربوں کے نسلی بھائی دولت مند ترین عرب ملک 66 سال سے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کو دیکھ رہے ہیں لیکن اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی زحمت کیوں نہیں کرتے؟ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ امریکا اپنی منافقانہ پالیسیوں کے ذریعے اسرائیل کو ہر سزا سے بچا لے گا۔
Load Next Story