میدان سج چکا ہے
یہ 10 جنوری 1977ء کا دن ہے ۔ لاہور کے معروف وکیل اور شعلہ بیان مقرر رفیق احمد باجوہ کے مکان کی بالائی منزل
یہ 10 جنوری 1977ء کا دن ہے ۔ لاہور کے معروف وکیل اور شعلہ بیان مقرر رفیق احمد باجوہ کے مکان کی بالائی منزل پر اپوزیشن پارٹیوں کا اجلاس ہو رہا ہے، مسلم لیگ ، جمعیت علماے اسلام،جمعیت علماے پاکستان،جماعت اسلامی ، تحریک استقلال ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ، پاکستان جمہوری پارٹی ، مسلم کانفرنس آزاد کشمیر اور خاکسار تحریک کے سربراہان سرجوڑ کر بیٹھے ہیں ۔ ان پارٹیوں کے درمیان بے شمار اختلافات ہیں، لیکن ذوالفقار علی بھٹوکے متکبرانہ طرز حکومت نے ان کو متحد کر دیا ہے۔
سانحہ لیاقت باغ (راول پنڈی )، جس میں اپوزیشن کے جلسہ پر سرکاری کارندوں کی براہ راست فائرنگ سے 8 افراد خون میں نہا گئے تھے، ابھی تک اپوزیشن کے ذہن سے محو نہیں ہو سکا ۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ جب تک متحد نہیں ہوگی، بھٹوحکومت کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ رفیق احمد باجوہ کے مکان کی بالائی منزل پر یہی یک نکاتی ایجنڈا زیر بحث ہے ۔ گیلری میں اور مکان سے باہر مقامی رہنماوں اور کارکنوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو چکا ہے۔ سب کی نگاہیں بالائی منزل کے کمرے پر ٹکی ہیں، جس کا دروازہ اندر سے بند ہے ۔ ایک ، دو ، تین ، کئی گھنٹے گزر جاتے ہیں ۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ، ہجوم میں اضطراب بڑھتا جا رہا ہے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آج کے اجلاس میں بھٹو حکومت سے نجات کے یک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہو جائے گا یا نہیں ، لیکن تمنا سب کی یہی ہے۔
انتظار کی گھڑیا ں ختم ہوتی ہیں اور بالائی منزل کا دروازہ کھلتا ہے۔ سب سے پہلے رفیق احمد باجوہ مسکراتے ہوئے باہر آتے ہیں اور مجمع کو نوید سناتے ہیں کہ اپوزیشن کی تمام پارٹیاں بھٹو حکومت کے خلاف متحد ہو گئی ہیں ، اور اپوزیشن کے اس نئے اتحاد کو 'پاکستان قومی اتحاد' کا نام دیا گیا ہے۔ وہ ہجوم جس پر کچھ دیر پہلے تک سکتہ طاری تھا ، اب بے اختیار نعرہ زن ہے ۔ نئے حکومت مخالف اتحاد پر بھٹو حکومت کے وزرا یہ پھبتی کس رہے ہیں کہ ان پارٹیوں کی پارلیمنٹ میں نمایندگی محض چند سیٹوں پر مشتمل ہے، بلکہ تحریک استقلال سمیت دو ایک پارٹیوں کے پاس تو اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہیں ۔ لیکن دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔
الیکشن کے بعد حکومت مخالف اتحاد دھاندلی کے خلاف احتجاجی مہم کا اعلان کرتا ہے جو آناً فاناً ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اور صرف چند ماہ کے اندر اندر حکومت اس کے آگے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی احتجاجی تحریکوں کی تاریخ کی تہوں میں چھپی یہ کہانی دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ آج نوازشریف حکومت اور اس کے پرجوش وزرا کی سوچ بظاہر یہ محسوس ہوتی ہے کہ حکومت مخالف رہ نما عمران خان ، طاہرالقادری ، الطاف حسین ، چوہدری برادران کبھی متحد نہیں ہوں گے، اور یہ کہ قومی اسمبلی میں نوازشریف کی دوتہائی اکثریت کے سامنے ان پارٹیوں کی حیثیت ہے ہی کیا ، لیکن جو بات سرکاری برزجمہروں کی سمجھ میں نہیں آ رہی ، وہ یہ ہے کہ مسئلہ اپوزیشن پارٹیوں کی نشستوں یا تضادات کا نہیں ، مسلم لیگ ن کے طرز حکومت کا ہے ، جورفتہ رفتہ اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پراکٹھا کر رہا ہے۔ نوازشریف حکومت سے طرز حکمرانی سے نالاں اپوزیشن کے پاس متحد ہونے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں رہا ۔
حقیقتاً ، جیسے جیسے لانگ مارچ کی تاریخ قریب آتی جائے گی، عمران خان اور طاہرالقادری پر حکومت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے اندرونی دباو بڑھتا جا ئے گا۔ اس کالم نگارکی اطلاع یہ ہے کہ چند روز پہلے جب حکومت نے14 اگست کو پارلیمنٹ ہاوس کے مقابل ڈی چوک میں فوجی پریڈ کرانے کا اعلان کیا ، جو اب صرف پرچم کشائی تک محدود کردی گئی ہے، اس کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان رابطوں میں مزید تیزی آ گئی ۔ ویسے یہ بات دلچسپ ہے کہ14 اگست کو ڈی چوک میں فوجی پریڈ تو دور کی بات ، پچھلے کئی سال سے پرچم کشائی کی تقریب بھی منعقد نہیں کی جا رہی ۔
چوہدری شجاعت حسین راوی ہے کہ ان کی عبوری وزارت عظما کے دوران میں14 اگست کی مرکزی تقریب حسب معمول ڈی چوک میں منعقد کی جا رہی تھی ۔ اس دوران میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ اس طرح کی قومی تقریب کے لیے، جس میں ملک کی تمام اعلیٰ سول اورفوجی قیادت موجود ہوتی ہے، ڈی چوک کی کھلی جگہ قطعاً غیر موزوں اورغیر محفوظ ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کے بقول ، جنرل پرویز مشرف نے کہاکہ ڈی چوک کی تقریب کو نواحی پہاڑوں کے عقب سے بہ آسانی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے بعد ہی 14اگست کی پرچم کشائی کی تقریب کو مستقلاً کنونشن سینٹرمیں منتقل کر دیا گیا ۔
نوازشریف حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کئی ماہ پہلے طے کر لیا تھا کہ اس بار14 اگست کی مرکزی تقریب ڈی چوک میں ہو گی ۔ چند روزپیشتر وزیر سیفرون جنرل ( ر ) عبدالقادر بلوچ لاہو رتشریف آئے، تواس کالم نگار کے ساتھ تفصیلی ملاقات کے دوران انھوں نے بھی بہت اصرار کے ساتھ یہ بات کہی ، تاہم شواہد سرکاری دعووں کی نفی کرتے ہیں ۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ نوازشریف حکومت نے یہ فیصلہ 'کاونٹر سڑیٹجی' کے تحت کیا ہے ، اور یہ تصدیق کرلینے کے بعد ہی چوہدری شجاعت حسین اور شیخ رشید احمد نے اس حکومتی فیصلہ پرکڑی تنقید کی۔
جواباً حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ14 اگست کو ڈی چوک میں فوجی پریڈ نہیں ، صرف پرچم کشائی کی تقریب ہوگی، اور وہ بھی لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے بہت پہلے ختم کر دی جائے گی ۔ کہا جا رہا ہے کہ پرچم کشائی کی یہ سرکاری تقریب 13 اور 14 کی درمیانی شب منعقد کرنے کی تجویز بھی زیرغور ہے، تاہم سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے یہ تجویز ناقابل عمل معلوم ہوتی ہے۔
وجوہات جو بھی ہوں ، یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ 14 اگست کو حکومت نے خلاف معمول ڈی چوک کو engage کرکے نہ صرف یہ کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کی طاقت بڑھا دی ہے، بلکہ غیر ارادی طور پر عمران خان اور طاہر القادری کے درمیان اشتراک عمل کی نئی راہ بھی کھول دی ہے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ چوہدری برادران اور شیخ رشید احمدکے توسط سے عمران خان اور طاہر القادری کے درمیان براہ راست ملاقات کے لیے بات چیت شروع ہو چکی ہے۔ یہ ملاقات کسی وقت بھی ہو سکتی ہے، اوراس آرٹیکل 245 کے تحت فوج بلانے کے حکومتی فیصلہ کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
ستم یہ ہے کہ پنجاب میں، جہاں ان دنوں 'شریف برادران بمقابلہ عمران قادری چوہدری غیر اعلانیہ اتحاد' کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے ، آصف علی زرداری چاہیں بھی تو شریف برادران کی مدد نہیں کر سکتے ، کہ ان کی مفاہمتی سیاست پیپلزپارٹی کو پنجاب سے بہا لے جا چکی ہے۔ آصف علی زرداری کی طرف سے عمران خان کے مطالبہ کی حمایت البتہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کو پنجاب میں حالات کے نئے رخ کا ادراک ہو چکا ہے ، اور ان کو اندیشہ ہے کہ نئی صورتحال میں پنجاب کے اندر ان کی پارٹی بالکل غیر متعلق ہو کر رہ جائے گی ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت مضحکہ خیز ہو چکی ہے، وہ نہ تین میں ہے ، نہ تیرہ میں۔ جو کسر رہ گئی تھی ، وہ خورشید احمد شاہ نے نکال دی ہے ؛ جو کہنے کو 'اپوزیشن لیڈر' ہیں ، لیکن پریشان ہمیشہ حکومت کے لیے پائے جاتے ہیں ۔ لہٰذا ، پنجاب میں نوازشریف حکومت کو ''عمران، قادری ، چوہدری غیراعلانیہ اتحاد'' کی طرف سے جو چیلنج درپیش ہے ، اس کا مقابلہ اسے تنہا ہی کرنا ہے، جو بظاہر بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت تدبر اورتحمل کا مظاہرہ کرتی ، لیکن 14 اگست کو ٹھیک اس مقام پر ، جہاں اپوزیشن کے لانگ مارچ کو پہنچنا ہے ، خلاف معمول سرکاری تقریب رکھنے کا اعلان کرکے حکومت نے tit for tat کی جو اسٹرٹیجی اختیار کی ہے، یہ اپوزیشن کے لیے نہیں ، آخرکار خود حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہو گی ۔ اس پر مستزادحکومت کے بعض وزرا کی عمران خان ، طاہر القادری ، چوہدری برادران اور شیخ رشید پر بے سروپا اور اشتعال انگیز تنقید ہے ، جو جلتی پر تیل ڈال رہی ہے ۔ حکومت اور اس کے وزرا یہ سمجھنے سے قاصر معلوم نظر آتے ہیں کہ اپوزیشن رہنماوں پر اس طرح کی سرکاری تنقید ، حکومت کی مضبوطی نہیں، حکومت کی کمزوری ظاہر کرتی ہے ۔
قصہ کوتاہ یہ کہ آج اگر الیکشن کے ایک سال بعد ہی نوازشریف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میدان سج چکا ہے اور اپوزیشن تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہونے جا رہی ہے، تو اس میں عمران خان ، طاہر القادری ، چوہدری برادران اور شیخ رشید احمد کی مہارت ہی کا نہیں،حکمرانوں کے طرز حکومت کا بھی بہت دخل ہے ۔
سانحہ لیاقت باغ (راول پنڈی )، جس میں اپوزیشن کے جلسہ پر سرکاری کارندوں کی براہ راست فائرنگ سے 8 افراد خون میں نہا گئے تھے، ابھی تک اپوزیشن کے ذہن سے محو نہیں ہو سکا ۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ جب تک متحد نہیں ہوگی، بھٹوحکومت کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ رفیق احمد باجوہ کے مکان کی بالائی منزل پر یہی یک نکاتی ایجنڈا زیر بحث ہے ۔ گیلری میں اور مکان سے باہر مقامی رہنماوں اور کارکنوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو چکا ہے۔ سب کی نگاہیں بالائی منزل کے کمرے پر ٹکی ہیں، جس کا دروازہ اندر سے بند ہے ۔ ایک ، دو ، تین ، کئی گھنٹے گزر جاتے ہیں ۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ، ہجوم میں اضطراب بڑھتا جا رہا ہے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آج کے اجلاس میں بھٹو حکومت سے نجات کے یک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہو جائے گا یا نہیں ، لیکن تمنا سب کی یہی ہے۔
انتظار کی گھڑیا ں ختم ہوتی ہیں اور بالائی منزل کا دروازہ کھلتا ہے۔ سب سے پہلے رفیق احمد باجوہ مسکراتے ہوئے باہر آتے ہیں اور مجمع کو نوید سناتے ہیں کہ اپوزیشن کی تمام پارٹیاں بھٹو حکومت کے خلاف متحد ہو گئی ہیں ، اور اپوزیشن کے اس نئے اتحاد کو 'پاکستان قومی اتحاد' کا نام دیا گیا ہے۔ وہ ہجوم جس پر کچھ دیر پہلے تک سکتہ طاری تھا ، اب بے اختیار نعرہ زن ہے ۔ نئے حکومت مخالف اتحاد پر بھٹو حکومت کے وزرا یہ پھبتی کس رہے ہیں کہ ان پارٹیوں کی پارلیمنٹ میں نمایندگی محض چند سیٹوں پر مشتمل ہے، بلکہ تحریک استقلال سمیت دو ایک پارٹیوں کے پاس تو اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہیں ۔ لیکن دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔
الیکشن کے بعد حکومت مخالف اتحاد دھاندلی کے خلاف احتجاجی مہم کا اعلان کرتا ہے جو آناً فاناً ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اور صرف چند ماہ کے اندر اندر حکومت اس کے آگے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی احتجاجی تحریکوں کی تاریخ کی تہوں میں چھپی یہ کہانی دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ آج نوازشریف حکومت اور اس کے پرجوش وزرا کی سوچ بظاہر یہ محسوس ہوتی ہے کہ حکومت مخالف رہ نما عمران خان ، طاہرالقادری ، الطاف حسین ، چوہدری برادران کبھی متحد نہیں ہوں گے، اور یہ کہ قومی اسمبلی میں نوازشریف کی دوتہائی اکثریت کے سامنے ان پارٹیوں کی حیثیت ہے ہی کیا ، لیکن جو بات سرکاری برزجمہروں کی سمجھ میں نہیں آ رہی ، وہ یہ ہے کہ مسئلہ اپوزیشن پارٹیوں کی نشستوں یا تضادات کا نہیں ، مسلم لیگ ن کے طرز حکومت کا ہے ، جورفتہ رفتہ اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پراکٹھا کر رہا ہے۔ نوازشریف حکومت سے طرز حکمرانی سے نالاں اپوزیشن کے پاس متحد ہونے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں رہا ۔
حقیقتاً ، جیسے جیسے لانگ مارچ کی تاریخ قریب آتی جائے گی، عمران خان اور طاہرالقادری پر حکومت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے اندرونی دباو بڑھتا جا ئے گا۔ اس کالم نگارکی اطلاع یہ ہے کہ چند روز پہلے جب حکومت نے14 اگست کو پارلیمنٹ ہاوس کے مقابل ڈی چوک میں فوجی پریڈ کرانے کا اعلان کیا ، جو اب صرف پرچم کشائی تک محدود کردی گئی ہے، اس کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان رابطوں میں مزید تیزی آ گئی ۔ ویسے یہ بات دلچسپ ہے کہ14 اگست کو ڈی چوک میں فوجی پریڈ تو دور کی بات ، پچھلے کئی سال سے پرچم کشائی کی تقریب بھی منعقد نہیں کی جا رہی ۔
چوہدری شجاعت حسین راوی ہے کہ ان کی عبوری وزارت عظما کے دوران میں14 اگست کی مرکزی تقریب حسب معمول ڈی چوک میں منعقد کی جا رہی تھی ۔ اس دوران میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ اس طرح کی قومی تقریب کے لیے، جس میں ملک کی تمام اعلیٰ سول اورفوجی قیادت موجود ہوتی ہے، ڈی چوک کی کھلی جگہ قطعاً غیر موزوں اورغیر محفوظ ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کے بقول ، جنرل پرویز مشرف نے کہاکہ ڈی چوک کی تقریب کو نواحی پہاڑوں کے عقب سے بہ آسانی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے بعد ہی 14اگست کی پرچم کشائی کی تقریب کو مستقلاً کنونشن سینٹرمیں منتقل کر دیا گیا ۔
نوازشریف حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کئی ماہ پہلے طے کر لیا تھا کہ اس بار14 اگست کی مرکزی تقریب ڈی چوک میں ہو گی ۔ چند روزپیشتر وزیر سیفرون جنرل ( ر ) عبدالقادر بلوچ لاہو رتشریف آئے، تواس کالم نگار کے ساتھ تفصیلی ملاقات کے دوران انھوں نے بھی بہت اصرار کے ساتھ یہ بات کہی ، تاہم شواہد سرکاری دعووں کی نفی کرتے ہیں ۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ نوازشریف حکومت نے یہ فیصلہ 'کاونٹر سڑیٹجی' کے تحت کیا ہے ، اور یہ تصدیق کرلینے کے بعد ہی چوہدری شجاعت حسین اور شیخ رشید احمد نے اس حکومتی فیصلہ پرکڑی تنقید کی۔
جواباً حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ14 اگست کو ڈی چوک میں فوجی پریڈ نہیں ، صرف پرچم کشائی کی تقریب ہوگی، اور وہ بھی لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے بہت پہلے ختم کر دی جائے گی ۔ کہا جا رہا ہے کہ پرچم کشائی کی یہ سرکاری تقریب 13 اور 14 کی درمیانی شب منعقد کرنے کی تجویز بھی زیرغور ہے، تاہم سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے یہ تجویز ناقابل عمل معلوم ہوتی ہے۔
وجوہات جو بھی ہوں ، یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ 14 اگست کو حکومت نے خلاف معمول ڈی چوک کو engage کرکے نہ صرف یہ کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کی طاقت بڑھا دی ہے، بلکہ غیر ارادی طور پر عمران خان اور طاہر القادری کے درمیان اشتراک عمل کی نئی راہ بھی کھول دی ہے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ چوہدری برادران اور شیخ رشید احمدکے توسط سے عمران خان اور طاہر القادری کے درمیان براہ راست ملاقات کے لیے بات چیت شروع ہو چکی ہے۔ یہ ملاقات کسی وقت بھی ہو سکتی ہے، اوراس آرٹیکل 245 کے تحت فوج بلانے کے حکومتی فیصلہ کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
ستم یہ ہے کہ پنجاب میں، جہاں ان دنوں 'شریف برادران بمقابلہ عمران قادری چوہدری غیر اعلانیہ اتحاد' کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے ، آصف علی زرداری چاہیں بھی تو شریف برادران کی مدد نہیں کر سکتے ، کہ ان کی مفاہمتی سیاست پیپلزپارٹی کو پنجاب سے بہا لے جا چکی ہے۔ آصف علی زرداری کی طرف سے عمران خان کے مطالبہ کی حمایت البتہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کو پنجاب میں حالات کے نئے رخ کا ادراک ہو چکا ہے ، اور ان کو اندیشہ ہے کہ نئی صورتحال میں پنجاب کے اندر ان کی پارٹی بالکل غیر متعلق ہو کر رہ جائے گی ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت مضحکہ خیز ہو چکی ہے، وہ نہ تین میں ہے ، نہ تیرہ میں۔ جو کسر رہ گئی تھی ، وہ خورشید احمد شاہ نے نکال دی ہے ؛ جو کہنے کو 'اپوزیشن لیڈر' ہیں ، لیکن پریشان ہمیشہ حکومت کے لیے پائے جاتے ہیں ۔ لہٰذا ، پنجاب میں نوازشریف حکومت کو ''عمران، قادری ، چوہدری غیراعلانیہ اتحاد'' کی طرف سے جو چیلنج درپیش ہے ، اس کا مقابلہ اسے تنہا ہی کرنا ہے، جو بظاہر بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت تدبر اورتحمل کا مظاہرہ کرتی ، لیکن 14 اگست کو ٹھیک اس مقام پر ، جہاں اپوزیشن کے لانگ مارچ کو پہنچنا ہے ، خلاف معمول سرکاری تقریب رکھنے کا اعلان کرکے حکومت نے tit for tat کی جو اسٹرٹیجی اختیار کی ہے، یہ اپوزیشن کے لیے نہیں ، آخرکار خود حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہو گی ۔ اس پر مستزادحکومت کے بعض وزرا کی عمران خان ، طاہر القادری ، چوہدری برادران اور شیخ رشید پر بے سروپا اور اشتعال انگیز تنقید ہے ، جو جلتی پر تیل ڈال رہی ہے ۔ حکومت اور اس کے وزرا یہ سمجھنے سے قاصر معلوم نظر آتے ہیں کہ اپوزیشن رہنماوں پر اس طرح کی سرکاری تنقید ، حکومت کی مضبوطی نہیں، حکومت کی کمزوری ظاہر کرتی ہے ۔
قصہ کوتاہ یہ کہ آج اگر الیکشن کے ایک سال بعد ہی نوازشریف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میدان سج چکا ہے اور اپوزیشن تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہونے جا رہی ہے، تو اس میں عمران خان ، طاہر القادری ، چوہدری برادران اور شیخ رشید احمد کی مہارت ہی کا نہیں،حکمرانوں کے طرز حکومت کا بھی بہت دخل ہے ۔