کرم میں امن معاہدہ ، ایک جائزہ

کھانے کی قلت ہو گئی ، ادویات ختم ہو گئیں۔ لیکن جرگہ امن معاہدہ تک پہنچ ہی نہیں رہا تھا۔ تاہم بالآخر امن معاہدہ ہو گیا ہے۔


مزمل سہروردی January 03, 2025
[email protected]

کرم میں امن معاہدہ ہو گیا ہے۔ سیکڑوں لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں۔ درجنوں بچے دوائیاں نہ ملنے کی وجہ سے جان سے چلے گئے ہیں۔ کئی ہفتوں سے بند راستے کھولے جا ئیں گے۔ بند راستوں کی وجہ سے بیمار لوگ اسپتال نہیں جا سکے ۔ کھانے کی قلت ہو گئی ، ادویات ختم ہو گئیں۔ لیکن جرگہ امن معاہدہ تک پہنچ ہی نہیں رہا تھا۔ تاہم بالآخر امن معاہدہ ہو گیا ہے۔ کیا ہم اس امن معاہدہ پر شکر کریں اور خوشی منائیں کہ امن ہو گیا۔

لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ جانوں سے گئے ان کے خون کا حساب کون دے گا۔ امن معاہدہ میں اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ جو لوگ جان سے گئے ہیں ان کے خون کا کیا حساب ہوگا۔ جنھوں نے مارا ہے ان کو قانون کے سامنے سرنڈر کرنے کا نہیں کہا گیا۔ جرگہ نے لوگوں کے خون کا کوئی حساب نہیں کیا۔ قاتل آزاد رہیں گے، مقتول کا خون ضایع ہو گیا۔

ایسے کیسے امن آئے گا۔ جب یہ طے ہو جائے گا کہ قتل کر کے آپ کو کوئی سزا نہیں ملے گی تو لوگ بار بار قتل کریں گے۔ کرم میں یہی ہوتا ہے۔ وہاں ہر تھوڑے عرصہ بعد اسی طرح قبائلی لڑائی شروع ہو جاتی ہے جسے فرقہ واریت کا بھی رنگ دیا جاتا ہے۔ اسٹبلشمنٹ بتا بتا کر تھک گئی ہے کہ یہ کوئی فرقہ ورانہ لڑائی نہیں ہے بلکہ دو قبائل کے درمیان زمینی تنازعات ہیں اور زمینی تنازعات کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصہ بعد فساد شروع ہو جاتے ہیں۔ قتل عام شروع ہو جاتا ہے۔

کرم کے حالیہ فساد اور قتل عام میں مجھے کے پی کی حکومت نے بھی نا امید کیا ہے۔ کے پی کی حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے سیکڑوں لوگ جان سے چلے گئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کرم میں قتل عام شروع ہو ا تو کے پی کی حکومت اس وقت اسلام آباد پر چڑھائی پر مصروف تھی۔ اس لیے پہلے دن سے کرم پر وہ توجہ نہیں دی جا سکی جو دی جانی چاہیے تھی۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ اس سارے بحران کے دوران ایک دفعہ بھی کرم نہیں گئے۔

وہ کوہاٹ گئے لیکن کرم نہیں گئے۔ جہاں لڑائی تھی، جہاں مسئلہ تھا ، وہاں نہیں گئے۔ آپ اسی سے وہاں صوبائی حکومت کی رٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جہاں وزیر اعلیٰ جا نہیں سکتا وہاں حکومت کی کیا رٹ ہو گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم فوج کو ذمے دار بناتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جب آپریشن عزم استحکام شروع کیا گیا تھا تو کے پی حکومت نے کے پی میں کسی بھی قسم کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ کے پی اسمبلی میں تقاریر کی گئیں۔ یہ کہا گیا کہ ہم خود امن قائم کریں گے۔ پھر جب کرم میں قتل عام ہوا تو یہ سوال اہم کیوں نہیں کہ صوبائی حکومت نے امن قائم کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے۔ اب فوج کی مدد کیوں مانگی گئی۔

اسی طرح مجھے مجلس وحدت المسلمین پر بھی بہت افسوس ہے۔ میری رائے میں انھوں نے بھی کرم پر سیاست کرنے کی کوشش کی۔ کرم کے پی کا مسئلہ ہے۔ کے پی حکومت نے وہاں امن قائم کرنا ہے۔ یہ بتایا جائے اس مسئلہ پر کراچی اور دیگر شہروں میں دھرنا دینے کی کیا ضرورت ہے۔ مجلس وحدت المسلمین تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ مسئلہ کے پی کا ہے کراچی میں دھرنے دینے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے دھرنا دینا ہے تو پشاورو زیر اعلیٰ کے دفتر کے باہر دھرنا دیں۔ آپ نے مارچ کرنا ہے تو کے پی حکومت کے خلاف مارچ کریں۔ پشاور چھوڑ کر کراچی میں دھرنے سمجھ سے بالاتر تھے۔ آپ صرف اس مسئلہ پر سیاست کرنا چاہتے تھے اور سیاست کرتے رہے۔ اگر مجلس وحدت مسلمین والے واقعی سنجیدہ ہوتے تو کے پی حکومت پر دباؤ بڑھاتے۔ لیکن وہ تو کے پی کی حکومت کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔

ایک ماہ چلنے والے گرینڈ جرگے میں بالآخر طے ہوا ہے کہ تمام نجی مورچے ختم کیے جائیں گے۔ نجی مورچے لڑائی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ وہاں صرف نجی مورچے نہیں ہیں بلکہ دونوں قبائل نے اپنی اپنی فوج بھی بنائی ہوئی ہے۔

اسی لیے صوبائی اپیکس کمیٹی میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ سب سے اسلحہ واپس لیا جائے۔ اب گرینڈ جرگے میں یہ بات طے ہوئی ہے کہ سب فریقین بھاری ہتھیار جرگہ اور حکومت کے پاس جمع کروائیں گے۔ مجھے جرگے کے پاس جمع کروانے پر بھی اعتراض ہے، صرف حکومت کے پاس جمع ہونے چاہیے۔ جرگے میں یہ بات بھی طے ہوئی ہے کہ قومی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو دہشتگرد تصور کیا جائے گا۔ یہ قانون پورے ملک پر ہونا چاہیے۔ ملک میں بھی احتجاج کے نام پر قومی املاک کو نقصان پہنچانا رواج بن گیا ہے۔

جرگے نے یہ بھی طے کیا ہے کہ کسی بھی لڑائی کو مذہبی رنگ نہیں دیا جائے گا۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ ہر دفعہ کرم میں قبائلی لڑائی کو فرقہ ورانہ لڑائی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ اس بار بھی مجلس وحدت مسلمین کے دھرنوں نے بھی یہی رنگ دیا۔ جرگے نے بیدخل خاندانوں کی دوبارہ آباد کاری کا بھی طے کیا ہے۔ لوگ لڑائی کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑ کر علاقہ سے جا چکے ہیں۔ لوگ بار بار کی لڑائی اور خون خرابے سے بھی تنگ آچکے ہیں۔ ان کی واپسی ایک مشکل کام ہے۔ وہ عارضی امن سے بھی واپس نہیں آئیں گے۔ صرف مستقل امن ہی ان کو واپس لا سکتا ہے۔ کوئی گن پوائنٹ پر انھیں واپس نہیں لا سکتا۔

کرم میں اسلحہ کی نمائش اور استعمال پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں علاقے کو اسلحہ سے پاک کرنے کی ضرورت ہے کسی کے پاس کسی بھی قسم کا اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ کرم میں کالعدم تنظیموں کے دفاتر کھولنے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کالعدم تنظیمیں بھی اس قتل عام سے بہت فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بہرحال راستے کھولے جا رہے ہیں اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے ابھی گاڑیوں کے قافلے چلائے جائیں گے۔

اکیلی گاڑیوں کو سفر کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لڑائی شروع گاڑیوں میں مسافروں پر فائرنگ سے ہوئی تھی۔ اس لیے اب گاڑیوں کے قافلے چلانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ شرپسندوں کو پناہ دینے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ پناہ دینا جرم بنایا گیا ہے۔ اس علاقے میں شر پسندوں کو پناہ دینے کا بھی رواج ہے۔ جو لڑائی میں پھر مدد کرتے ہیں۔ اس لیے اب پناہ دینے کو جرم بنا دیا گیا ہے۔

بہر حال کرم میں امن معاہدہ ہو گیا ہے۔ امید کر سکتے ہیں کہ اس امن معاہدہ کے نتیجے میں امن ہو جائے گا۔ لیکن میں پھر کہوں گا کہ اس معاہدہ میں جو قتل عام ہوا ہے اس کے مجرمان کی کوئی نشاندہی نہیں۔ انھیں قانون کے حوالے کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ بلکہ مجھے تو لگا ہے کہ ان کے لیے آگے امن کے لیے عام معافی کی بات کی گئی ہے۔ جو بہرحال ریاست کی کمزوری ہے اور جب جب ریاست کمزوری دکھاتی ہے اس کا نقصان ہی ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں