پہلے کبھی طلاق کا نام بہت کم سننے میں آتا تھا، لیکن چند سال سے تواتر سے یہ سب ہو رہا ہے۔ پہلے جب لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی اور دیگر بزرگ لڑکی کو یہ نصیحت ضرور کرتے تھے کہ ’’سرخ جوڑے میں جا رہی ہو، سفید میں نکلنا۔‘‘ اس جملے سے لڑکی ذہنی طور پر تیار رہتی تھی کہ اسے نبھانا ہے۔
جب سے سرخ جوڑے غائب ہوئے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے رنگوں کے جوڑوں نے جگہ بنا لی ہے تبھی سے یہ جملہ بھی متروک ہو گیا ، پہلے مائیں بیٹیوں کو نصیحت کرتی تھیں کہ ’’ساس سسر کی خدمت کرنا، سسرال کی کوئی بات میکے میں آ کر نہ کہنا، شوہر کا خیال رکھنا، اس سے بھی کبھی بد زبانی نہ کرنا‘‘ لیکن اب معاملہ برعکس ہے۔ اب مائیں پہلے ہی سے لڑکی کے کان بھر دیتی ہیں کہ ’’سسرال والوں کو منہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں، جتنی جلدی ہو سکے الگ گھر کر لینا۔‘‘
صوفیہ میری کالج کولیگ کی بیٹی ہے، دس سال قبل اس کی شادی ہوئی، سسرال میں دو نندیں ایک دیور اور ساس سسر تھے۔ معقول اور خوش مزاج لوگ تھے، لڑکا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھا، دونوں نندیں اور دیور بھی جاب کرتے تھے، ساس سسر ریٹائرڈ اسکول ٹیچر تھے، سلجھی ہوئی فیملی تھی، لیکن شادی کے چھ ماہ بعد صوفیہ نے طلاق لے لی۔
صوفیہ کی ماں بھی بہت معقول تھیں، انھوں نے اس اقدار کا بہت برا مانا لیکن صوفیہ کی سہیلیوں نے اسے یہ پٹی پڑھائی کہ تمہارا شوہر سب سے زیادہ کماتا ہے، اس لیے تم الگ ہو جاؤ، صوفیہ نے شوہر پہ دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ الگ گھر لے۔ اس نے بیک جنبش قلم بیوی کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ صوفیہ شادی کے تیسرے مہینے میکے آ کر بیٹھ گئی اور شوہر سے کہا کہ اگر اس نے الگ گھر نہ لیا تو وہ طلاق لے لے گی۔ ساس سسر نے بیٹے سے کہا کہ وہ الگ گھر لے لے۔ لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنے والدین سے الگ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
صوفیہ کی ماں نے بھی سمجھایا مگر وہ باز نہ آئی، ماں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کی بھابھی بھی الگ رہنے کی بات کرے تو اسے کیسا لگے گا؟ لیکن صوفیہ پر تو الگ ہونے کا بھوت سوار تھا، ایک آخری کوشش کرتے ہوئے شوہر اور ساس سسر نے اس کے میکے جا کر منانے کی کوشش کی لیکن صوفیہ کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ الگ رہے گی۔ آخر اس کی دوست عارفہ بھی تو شادی کے تین ماہ بعد ہی الگ ہوگئی تھی۔
جب بات نہ بنی تو شوہر نے پوچھا کہ ’’وہ اسے اپنا آخری فیصلہ سنا دے‘‘ تب اس نے جھٹ سے کہہ دیا کہ وہ یا تو الگ رہے گی ورنہ اسے طلاق چاہیے۔ شادی چونکہ لڑکے کی پسند سے ہوئی تھی اور صوفیہ خوش شکل بھی تھی۔ اس لیے اسے یقین تھا کہ اس کا شوہر اس کی بات مانے گا، لیکن اس وقت سب ہکا بکا رہ گئے جب صوفیہ کے شوہر نے کھڑے کھڑے اسے طلاق دے دی۔
پہلے بیٹیاں ناراض ہو کر میکے آتی تھیں تو ماں باپ انھیں واپس چھوڑ آتے تھے۔ اس طرح لڑکیوں کو احساس رہتا تھا کہ لڑائی جھگڑے میں میکے والے اس کے فریق نہیں بنیں گے تو وہ ساری توجہ اپنی سسرال اور شوہر پر رکھتی تھی اور ناموافق حالات کو بھی سنبھال لیتی تھی لیکن آج یہ حال ہے کہ ذرا ساس یا میاں نے کسی کام کو کہا تو وہ اٹھواٹھی کھٹواٹی لے کر بیٹھ گئیں۔ یا ناراض ہو کر میکے جا بیٹھیں، ماں نے سر پر ہاتھ پھیرا اور شاباشی دی کہ بہت اچھا کیا جو آگئیں، اب اس وقت تک نہ جانا جب دس بار ناک نہ رگڑیں۔ سب ایسی نہیں ہوتیں۔
بہت سی لڑکیاں جن کی تربیت ان کی ماؤں نے اچھے اور سلجھے ہوئے طریقے سے کی ہوتی ہے وہ ایک خوشگوار زندگی گزارتی ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک فیملی رہتی تھی، ان کے صرف دو بیٹے تھے، شوہرکا یعنی بیٹوں کے باپ کا انتقال ہو چکا تھا، ماں نے اسکول میں پڑھا کر بچوں کو پالا تھا، شادی کا وقت آیا تو بڑے بیٹے نے ماں کی پسند سے شادی کی خواہش کا اظہارکیا۔ ایک جگہ رشتے کی بات چلی تو لڑکے نے لڑکی والوں سے کہا کہ وہ کبھی بھی اپنی ماں کو نہیں چھوڑے گا۔ لہٰذا اگر ان کے ذہن میں ایسی کوئی بات ہو کہ شادی کے بعد لڑکی الگ ہونے کی بات کرے تو بہتر ہے کہ ابھی انکار کر دیا جائے۔
شادی ہوئی اور تقریباً نو سال ہوگئے، وہ لڑکی اس قدر اچھی نکلی کہ اس نے ساس کو مہارانی بنا کر رکھا اور اس طرح شوہرکا دل بھی جیت لیا۔ ساس اپنے پوتا پوتی کے ساتھ بہت خوش رہتی ہیں، بس ماں نے بہو کی تلاش میں کنوؤں میں بانس نہیں ڈالے، نہ چاند سی بہو کی تلاش جاری رکھی بلکہ اپنے اسکول کی ساتھی کی بیٹی کا انتخاب کیا اور سانولی سلونی سی بہو بیاہ کر لے آئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ محض شکل دیکھ کر جو رشتے کیے جاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے، لیکن بدقسمتی سے زیادہ تر گھر والے اور خود لڑکا حور پری ڈھونڈتے ہیں۔
سچ پوچھیے تو ہمارے معاشرے میں شہری اور پڑھا لکھا مرد واقعی مظلوم ہے نہ وہ بیوی کو مار سکتا ہے نہ چٹیا پکڑ کے گھر سے نکال سکتا ہے اور نہ نان نفقہ بند کر سکتا ہے۔ ہم نے تو ایسے مرد بھی دیکھے ہیں جو بچوں کو اسکول کے لیے تیار بھی کرتے ہیں، شام کی چائے بھی بناتے ہیں اور بیوی کی صلواتیں بھی سنتے ہیں، رگوں میں اعلیٰ نسب ماں باپ کا خون انھیں چپ رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
ایسے مردوں کی بیویاں شیر ہو جاتی ہیں اور شوہر کی خاندانی اور نسبی شرافت کو اس کی کمزوری سمجھتی ہیں، اگر وہ ایسا نہ کرے تو گھر ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ سمجھ دار مرد بچوں کی خاطر یہ زہر پیتے رہتے ہیں۔ طلاق ہونے کی صورت میں بچے جس ذہنی عذاب سے گزرتے ہیں، سمجھ دار مرد اور عورتیں اس کا خیال کرکے بہت سارے نزاعی معاملات خود ہی سلجھا لیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ لڑکیوں کی مائیں اور باپ بیٹی کے گھر میں بلا سبب دخل اندازی کرکے معاملات کو بگاڑ دیتے ہیں۔
لڑکیوں کا کئی کئی دن میکے میں رہنا، شوہر کو نظرانداز کرنا، سسرال والوں کی گاہے بہ گاہے بے عزتی کرنا اور بزرگوں سے زبان چلانا بعض اوقات ایسے مسائل پیدا کر دیتا ہے کہ گھر ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ دونوں میں سے کوئی ایک جب تک مضبوط اعصاب کا مالک نہ ہو گاڑی نہیں چل سکتی۔
یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ گھر بنانے میں کلیدی کردار عورت کا ہوتا ہے کیونکہ سمجھدار مائیں شروع ہی سے انھیں ضبط و تحمل کا عادی بنانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ سب اس وقت ہوتا تھا جب جوائنٹ فیملی سسٹم کی موت واقع نہیں ہوئی تھی۔ اب میاں بیوی اور بچوں کو روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں رہا، مشترکہ نظام زندگی اب خال خال نظر آتا ہے، لیکن گاؤں گوٹھوں میں اب بھی جوائنٹ فیملی سسٹم کامیاب ہے۔ وہاں بلاوجہ کوئی بہو الگ رہنے کی فرمائش نہیں کرتی۔ لیکن شہروں میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔
میاں نے دو سنائیں تو بیوی نے چار سنا دیں۔ نتیجہ، طلاق۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ طلاق کے بعد مرد اور عورت اپنا اپنا جیون ساتھی ڈھونڈ لیں گے، لیکن بچوں کو نہ ماں ملتی ہے اور نہ باپ۔ ان کی شخصیت بکھر جاتی ہے۔ طلاق کے نتائج بہت ہولناک ہوتے ہیں۔ طلاق کے بعد بچے عموماً ماں کے پاس رہتے ہیں اور اگر وہ خاتون دوسری شادی کرے یا بچے اگر باپ کے پاس رہتے ہوں تو نہ بچوں کو ماں ملتی ہے نہ باپ۔ سوتیلی ماں کے مظالم سے کون واقف نہیں اور سوتیلا باپ بھی کوئی فرشتہ نہیں ہوتا۔ ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچوں کی شخصیت اس بری طرح بکھرتی ہے کہ وہ مستقبل میں ایک اچھا انسان نہیں بن سکتے۔ بچے شدید احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
طلاقوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک وجہ لڑکے والوں کی مال دار بہو تلاش کرنا بھی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لڑکیاں بہت سارا جہیز لاتی ہیں وہ سسرال میں ایڈجسٹ نہیں کر پاتیں۔ ان کی نظر میں شوہر کی حیثیت محض ایک ’’پالتو جانور‘‘ کی سی ہوتی ہے۔ شادی ہمیشہ اپنے ہی جیسے لوگوں میں کرنی چاہیے لیکن یہ بھی کوئی کلیہ نہیں ہے۔ دراصل ٹی وی کے احمقانہ ڈراموں نے بھی طلاقوں کی شرح بڑھائی ہے۔ بات صبر اور تحمل کی ہے، جبھی شادی شدہ زندگی کی گاڑی کامیابی سے چل سکتی ہے۔