دہشت گردی اور سہولت کاری

پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ شمال مغرب میں اپنے لیے سیف ہیون ڈھونڈتا ہے


لطیف چوہدری January 03, 2025
[email protected]

پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر ہو یا ماضی میں دہشت گردی کی وارداتیں، اس کے تانے بانے شمال مغربی سرحد کے پار جا کر ملتے ہیں۔ افغانستان کے ہرحکمران اور وہاں کی اشرافیہ نے روزاول سے پاکستان کی مخالفت کو ریاستی پالیسی بنا کر رکھا ہے۔

اسی پالیسی کے تحت اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی گئی اور پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنانے کے پراپیگنڈے کا آغاز کیا گیا۔ ظاہر شاہ اور سردار داؤد حکومت نے پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے پشتونستان کا شوشا چھوڑا۔ ان دنوں بھی معاملہ اتنا بگڑایا گیا کہ ایوب خان کے دور میں پاکستان کو اس علاقے میں ائر اسٹرائیکس کرنا پڑیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں ظاہر شاہ کا دورہو، سردار داؤد کی آمریت ہو، سوشلسٹوں کا اقتدار ہو، امریکا پرستوں کی حکومت ہو یا مذہب کا لبادہ اوڑھنے والے مجاہدین اور طالبان کی آمریت ہو، پاکستان دشمنی کے حوالے سے سب کا رویہ اور پالیسی ایک جیسی چلی آ رہی ہے ۔

دو دہائی قبل جو زبان کرزئی،اشرف غنی اور عبداﷲکی حکومت بولتی تھی، ویسی ہی زبان اب طالبان بول رہے ہیں۔ آج طالبان حکومت کے زعما دعوے کر رہے ہیں کہ انھوں نے سوویت یونین کو شکست دی اور پھر امریکا کو شکست دی لیکن وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیںکہ اگر اس لڑائی میں پاکستان شامل نہ ہوتا تو افغانستان سے سوویت فوجیں واپس جاتیں اور نہ وہاں کمیونسٹوں کا اقتدار ختم ہوتا۔ امریکا کی باری تو بعد میں آنی تھی۔

آج بھی طالبان کا اقتدار پاکستان کا مرہون منت ہے۔ دوحہ مذاکرات کی راہ بھی پاکستان نے ہموار کی ہے۔ طالبان حکمران امریکا کی جس شکست کی بات کر رہے ہیں، یادش بخیر طالبان کی قیادت نے دوحہ میں امریکا سے ہی باقاعدہ مذاکرات کیے اور معاہدے پر دستخط کر کے اقتدار میں آئے ہیں۔

اس معاہدے میں طالبان نے عہدنامہ لکھا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے مقاصد کے لیے کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود اگر طالبان حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ملک میں پناہ دیے ہوئے ہے، تو یہ اقوام عالم کے ساتھ کیے گئے عہد کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ شمال مغرب میں اپنے لیے سیف ہیون ڈھونڈتا ہے، وہ وسط ایشاء کے حملہ آوروں کو گلوریفائی کرتا ہے ، ان حملہ آوروں نے آج کے افغانستان کو پہلے تاراج کیا، پھر آج کے پاکستان میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں قتل و غارت کی ، دریائے سندھ تو ان تباہیوں کے بعد کراس ہوا۔

پنج پانیوں کی زمین تو کہیں بعد میں آتی ہے لیکن عجب تماشا ہے کہ جو پہلے سرنڈر ہوئے، وہ خود کو فاتحین سمجھتے ہیں۔اس مائنڈ سیٹ کو پاکستان میں مارجنلائز کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے،ایسا کیے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افغانستان کے عوام کو بندوق بردار گروہوں کا اقتدار نہیں چاہیے بلکہ منتخب جمہوری حکومت کی ضرورت ہے ، وہاں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی عام انتخابات ہونا لازم ہے ۔

افغانستان کثیر النسلی اور لسانی ملک ہے،یہاں دس بڑی اور متعدد چھوٹی قومیتیںآباد ہیں جو مختلف زبانیں بولتی ہیں،البتہ کسی کی تعداد زیادہ اور کسی کی کم ہے، یہ کسی ایک قوم ، قبیلے یا لسانی گروہ کی کلی ملکیت ملک نہیں ہے۔ روس، برطانوی ہند اور ایران نے اپنے اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کو سامنے رکھ کر موجودہ افغانستان کی سرحدوں کا تعین کیا ہے ۔ اس لیے افغانستان کے حکمرانوں اور اہل علم کو جدید تاریخ کی ازسرنو اسٹڈی کی ضرورت ہے۔

 دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس کے تمام باشندے ایک نسل یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں خصوصاً فیڈریشنزمیں تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہر ملک کثیرالنسلی ، لسانی اور ثقافتی گروہوں کا خوبصورت گلدستہ ہے۔ امریکا ایک وفاق ہے اور وہاں سیکڑوں نسلوں، ثقافتوں اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں، امریکا ان سب کا ملک ہے۔ انڈیا میں بھی سیکڑوں نسلوں، ثقافتوں،مذاہب اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں۔ ایران میں بھی بیسیوں نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔

عرب ممالک بھی ایک نسل یا ثقافت کے حامل نہیں ہیں۔ روس کی صورت حال بھی ایسی ہے جب کہ چین میں بھی ہان، منگول، یوگور اور سینٹرل ایشیائی نسلی گروہ آباد ہیں اور یہ سب مل کر چین کہلاتے ہیں۔ پاکستان بھی ایک وفاق ہے اور یہاں پر مختلف نسلیں، ذاتیں، برادریاں، زبانیں اور بولیاں موجود ہیں۔ یہ سب پاکستانی ہیں۔

یہاں کسی ایک کی بالادستی یا اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی۔ ملک کی ملازم پیشہ کلاس ہو، سیاسی قیادت ہو، اہل علم ہوں، کاروباری برادری ہو، زمیندار، کسان اور زرعی مزدور ہوں، صنعت کار، تاجر اور علمائے مشائخ ہوں، یہ سب ریاست پاکستان کے سٹیک ہولڈر اور شہری ہیں۔ ان میں ہر قوم، برادری، مذہب ومسلک کے لوگ شامل ہیں۔ ان سب سے مل کر پاکستان بنتا ہے، اس لیے سب کو اس ملک کی حفاظت کرنا اپنا اولین فرض سمجھنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنا، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا صوبائی حکومت اور وفاق دونوںکی اولین ترجیح اور ذمے داری ہے۔ ضلع کرم میں عرصے سے قتل وغارت جاری ہے لیکن جو اقدامات ہونے چاہیے تھے، وہ نہیں ہوئے۔ بہرحال دیر آید درست آید خیبرپختونخوا کی کوششوں سے وہاں امن معاہدہ ہوگیا ہے۔ لیکن کرم خصوصاً پارا چنار میں قتل و غارت کرنے والے مجرمان سے حساب لینا ابھی باقی ہے کیونکہ جرگہ اس معاملے میں خاموش ہے۔

اگر سنجیدگی سے قانون پر عملدرآمد کر کے اور حکومت کی رٹ قائم کر دی جائے تو پارہ چنار ہی نہیں بلکہ پورے کرم ضلع میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے ڈھلمل پالیسی چاہے وہ صوبائی حکومت کی ہو یا وفاق کی، اسے کسی صورت سراہا نہیں جا سکتا کیونکہ پرامن ماحول میں زندگی گزارنا اور کاروبار کرنا پاکستان کے عوام خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔

پاکستان کا آئین اس حق کی تصدیق کرتا ہے۔ حکومت چاہے وفاق کی ہو یا صوبے کی، اس حکومت کو چلانے والوں پر آئین پر عمل کرنا لازم ہے، اگر کوئی حکومت یا حکومت کا کوئی کل پرزہ آئین اور قانون کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے بنیادی حق کے خلاف کام کر رہا ہے، اس لیے اس قسم کے حکومتی عہدیداروں یا سرکاری افسروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے کیونکہ جو ریاستی و حکومتی افسرو ملازم اپنا آئینی و قانونی فرض ادا نہیں کرتا ، وہ دراصل دہشت گردوں اور مجرموں کی سہولت کاری کرتا ہے۔

 وفاقی حکومت کا وزیراعظم ہو، اس کی کابینہ ہو، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان ہوں، وفاقی حکومت کے اعلیٰ افسر اور ملازمین ہوں، صوبائی وزیراعلیٰ ہو، اس کی کابینہ ہو، صوبائی اسمبلی کے ارکان ہوں یا صوبے کے سرکاری افسر اور ملازم ہوں، عدلیہ ہو یا فوج کے افسر و ملازمین، ان سب کو پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور دیگر مراعات بغیر کسی رکاوٹ کے ماہانہ بنیادوں پر تسلسل سے ادا کی جاتی ہیں، یہ تنخواہیں اور سہولتیں اسی لیے ادا کی جاتی ہیں کہ وہ آئین اور قانون میں درج اپنی ذمے داریاں اور فرائض کو پوری ایمانداری اور تندہی سے انجام دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قومی خزانے سے انھیں تنخواہ اور مراعات لینے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔

پاکستان کی سیاسی اشرافیہ بھی خود احتسابی کیے بغیر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتی ہے۔ مین اسٹریم پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف غیرمبہم اور دلیرانہ مؤقف اختیار نہیں کرسکی حالانکہ پاکستان کو بچانے کے لیے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مل رہی ہیں، انھیں آزادی سے نقل وحرکت کی بھی آزادی ہے اور ان کی تربیت گاہیں بھی پوری آزادی سے کام کر رہی ہیں۔ ان کی فنانشل لائف لائن بھی ان محفوظ پناہ گاہوں کی بدولت قائم ہے۔

افغانستان میں حالیہ عبوری سیٹ اپ قائم ہونے کے بعد اس خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان کو جو توقعات تھیں ، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ پاکستان نے افغان طالبان حکومت کو بار بار دراندازی کے بارے میں بھی بتایا ہے اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا ہے کہ دہشت گرد افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں۔

اس کے باوجود افغان حکومت اپنے ملک میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر پاکستان نے حق دفاع میں سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے تو اس پر افغانستان کے ڈیفیکٹو حکمرانوں کی چیخ وپکار مگرمچھ کے آنسو ہی کہے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں