اب بھی یقین نہیں آیا
میرے دوست اور محقق صحافی مجاہد حسین نے تقریباً نصف عشرہ قبل جب ’’پنجابی طالبان‘‘
NEW DELHI:
میرے دوست اور محقق صحافی مجاہد حسین نے تقریباً نصف عشرہ قبل جب ''پنجابی طالبان'' نامی تحقیقی کتاب لکھی تو یار لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ کہا گیا کہ جس ''شئے'' کا وجود ہی نہیں، ان صاحب نے اس پر پوری کتاب لکھ ماری ہے۔ مجاہد حسین نے ''پنجابی طالبان'' کا وجود تلاش کرکے اور ان کی قیادت کی نشاندہی کرتے ہوئے واقعی ایک اہم کام کیا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مَیں نے انھی صفحات پر مجاہد کی مذکورہ بالا کتاب پر مفصل تبصرہ شایع کیا تو کئی حلقوں کی طرف سے مجھے بذریعہ ای میل اور فون کہا گیا کہ مصنف نے ایک موہوم سے موضوع پر کتاب لکھی ہے، اس پر تبصرہ آرائی وقت اور الفاظ کی ضیاع کاری ہے۔
اس وقت پنجابی طالبان کے وجود کو موہوم ہی تو کہا جاتا تھا۔ بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ پنجاب اور فاٹا میں پنجابی طالبان کا عنصر موجود ہے۔ مجاہد حسین نے شواہد کی زبان میں انکشافات کیے تھے کہ پنجابی طالبان اگر آج شمالی و جنوبی وزیرستان میں رہ کر اہلِ پاکستان اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف بروئے کار ہیں توکل کو یقینا یہ خطرناک گروہ پنجاب میں بھی صف آرا ہو گا مگر اس پیشگوئی کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ہمیشہ پنجابی طالبان کے وجود سے ہمیشہ انکار کیا گیا حالانکہ یہ گروہ ٹی ٹی پی اور ''القاعدہ'' کا جزوِ ناگزیر بن کر طاقت پکڑتا جارہا تھا مگر نہیں معلوم کہ ہمارے حکمرانوں، ہمارے سیکیورٹی اداروں نے کیونکر اس سے اغماض برتا۔
رفتہ رفتہ ''پنجابی طالبان'' کتاب کے مندرجات کی تصدیق ہونے لگی۔ مجاہد حسین کی یہ معرکہ آرا کتاب اب انگریزی میں ترجمہ ہو کربھارت سے شایع ہوچکی ہے۔ اٹھارہ جولائی 2014ء کو لاہور کے مضافات میں واقع وزیراعظم پاکستان کی رہائش گاہ سے بالکل قریب جن خطرناک لوگوں سے پاکستان کے خفیہ اداروں نے کامیاب کارروائی کی ہے، یہ پنجابی طالبان سے ہی متعلق تھے۔ پاکستان کے مسلح اداروں اور اس خطرناک گروہ کے افراد کے درمیان کئی گھنٹے فائرنگ ہوتی رہی۔
اہم دہشت گرد مارے گئے اور ان کے چند معاون گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ حراست میں لیے جانے والے ان افراد سے جہاں دہشت گردوں کے بارے میں انتہائی قیمتی معلومات ملی ہیں، وہاں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مارے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق اوکاڑہ اور آس پاس کے علاقوں سے تھا۔جاتی عمرہ سے متصل پنڈ آرائیاں میں جو مبینہ دہشت گرد مارے گئے ہیں، ان کے بارے میںسارے میڈیا نے متفقہ طور پر یہی کہا ہے کہ یہ نوجوان نہ صرف مذہبی مدارس میں زیرِ تعلیم رہے ہیں بلکہ انھیں طالبان کے گروہ میں شامل کرانے میں بعض مدارس کے بعض اساتذہ مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ پنڈ آرائیاں میں جو مبینہ دہشت گرد مقابلے میں ہلاک ہوئے ہیں، وہ ملک کی ایک اعلیٰ مقتدر سیاسی شخصیت کے خلاف واردات کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کیے ہوئے تھے کہ مصدقہ اطلاعات کے بعد آپریشن کی زد میں آگئے۔ یہ سانحہ، جس میں ایلیٹ پولیس کے جان دینے والے ایک کمانڈو کے وارثوں کو حکومت نے ایک کروڑ روپے کی امداد دینے کا اعلان بھی کیا ہے، ہم سب کو ہلا گیا ہے۔ ہمارے وہ حکمران، جو اس سانحہ سے قبل بڑی شدومد سے پنجابی طالبان کے وجود کا انکار کرتے رہے ہیں، اب ان کی موجودگی تسلیم کر چکے ہوں گے۔
پنڈ آرائیاں کے سانحہ کے دوسرے روز ہی شمالی وزیرستان کے علاقے مداخیل پر جو ڈرون حملہ ہوا، اس میں مبینہ طور پر گیارہ کی تعداد میں پنجابی طالبان بھی مارے گئے۔ میڈیا نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں پنجابی طالبان کا ایک کمانڈر علی معاویہ، جو مبینہ طور پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے، بھی ہلاک ہوا۔ ہمارے جو ادارے اور سیاستدان بوجوہ پنجابی طالبان کے وجود سے انکار کرتے رہے ہیں، پنڈ آرئیاں کے بعد مداخل خیل میں مرنے والے گیارہ پنجابی طالبان کی خبر سن کر امید ہے انھیں بھی پنجابی طالبان کے وجود کی صداقت پر یقین آگیا ہوگا۔
کچھ عرصہ قبل، غالباً 2004ء کے دوران سندھ (نواب شاہ) میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں ایک خطرناک شدت پسند لیڈر امجد فاروقی مارا گیا تھا، اس کا تعلق بھی پنجاب کے ایک معروف شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا۔ (امجد حسین عرف امجد فاروقی پر الزام تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے میں بھی ملوث تھا اور اس نے امریکی صحافی ڈینیل پرل، جو امریکی اخبار ''وال اسٹریٹ جرنل'' سے وابستہ تھا، کے قتل میں بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے اسے اور ایک عرب دہشت گرد (ابو فراج اللبی) کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر دو کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کررکھا تھا۔
امجد فاروقی افغانستان میں طالبان سے مل کر شمالی اتحاد والوں کے خلاف جنگ میں بھی حصہ لیتا رہا ہے۔ وہ مبینہ طور پر القاعدہ کا معتبر کارندہ تھا) امجد فاروقی بھی دراصل پنجابی طالبان کے اولین لوگوں میں شامل تھا، اگرچہ اس وقت شمالی وزیرستان کے پاکستانی طالبان اور پنجابی طالبان کے خصوصی گروہ کو اتنی شہرت نہیں ملی تھی۔ ان دونوں سانحات کے پیش نظر پاکستان بھر بالخصوص پنجاب کے عوام کا یہ مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑتا ہوا محسوس ہورہا ہے کہ مذہبی مدارس کی سکروٹنی ہونی چاہیے۔
ہمیں معلوم ہے کئی مدارس کے مہتمم حضرات اس مطالبے کی ہمیشہ مخالفت کرتے آرہے ہیں لیکن یہ مخالفت بے بنیاد ہے کہ حکومت کو کسی بھی ایسے دینی مدرسے کے بارے میں کوئی مخاصمت نہیں جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کے لائے گئے دینِ مبین کی خدمت اور ترویج و اشاعت میں دن رات جُتے ہوئے ہیں۔ جب بھی مدارس کے آڈٹ اور چیکنگ کا مطالبہ سامنے آتا ہے، ملتان اور بہاولپور کے علاقوں میں بروئے کار دینی مدارس کے منتظمین اور مہتممین کی طرف سے سخت مخالفت اور مزاحمت کے مناظرسامنے آنے لگتے ہیں۔
''پنجابی طالبان'' کے مصنف مجاہد حسین کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ علاقے ہیں جو پنجابی طالبان کے لیے افرادی قوت فراہم کررہے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ مجاہد حسین کا یہ دعویٰ صد فیصد درست بھی ہو لیکن حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ چیک اور آڈٹ کے ذریعے ان خدشات و خطرات کافی الفور خاتمہ کرے۔ برے وقت سے قبل ہی، جب کہ خطرات کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہو، اگر اقدام کرلیا جائے تو ہم بہت سے اور ہمہ جہت نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔