رمضان عید اور ہمارا رویہ
برکت، رحمت اور مغفرت کا ماہ تاباں رخصت ہونے کو ہے۔ رمضان میں روزے کی فرضیت اور غرض و غایت سے
برکت، رحمت اور مغفرت کا ماہ تاباں رخصت ہونے کو ہے۔ رمضان میں روزے کی فرضیت اور غرض و غایت سے یوں تو ہر مسلمان الحمد اللہ واقف ہے (کہا یہی جاتا ہے) مگر رمضان المبارک کے اخبارات بلکہ تمام ذرایع ابلاغ سے معلوم ہوا کہ اس ماہ مبارک میں بھی قتل و غارت گری، بھتہ خوری، گراں فروشی، منافع خوری، بے ایمانی، ٹارگٹڈ کلنگ، دھوکا دہی نہ صرف شہر قائد بلکہ پوری مملکت خداداد میں عروج پر رہی۔
واحد نظریاتی مملکت کی سرزمین بے گناہوں کے خون سے سیراب ہوتی رہی۔ جس زمین پر خون ناحق بہایا جائے وہاں رحمت و برکت کا نزول ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس ماہ رمضان میں نہ صرف نظر آنے کی حد تک برکت کسی جانب محسوس ہوئی اور نہ احساسات و جذبات کا روح پرور منظر نظر آیا۔ کسی بھی اسلامی مملکت میں اگر محض زکوٰۃ کا نظام درست ہو اور واقعی وہ مستحقین تک پہنچ جائے تو بزرگوں کا کہنا ہے کہ پانچ نہیں تو دس برس میں اس ملک میں ڈھونڈنے سے بھی زکوٰۃ لینے والے نہیں ملیں گے۔
لیکن ہمارا کیا پورے عالم اسلام کا یہ حال ہے کہ زکوٰۃ کا نظام موجود ہے پھر بھی غربت و افلاس روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اور ممالک کے بارے میں تو ہم وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن اپنے ملک کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ادا کر رہے ہیں لیکن وہ مستحقین کے بجائے کسی اور کی جیب میں جا رہی ہے ورنہ ہر سڑک، ہر چوراہے پر کئی کئی (زن و مرد بچے) گداگر لوگوں کا گزرنا محال نہ کرتے۔
دراصل اہم بات یہ بھی ہے کہ خیرات و زکوٰۃ دینے والے پر صرف یہ فرض نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام پر یا اس کی خوشنودی کے لیے دے رہا ہے بلکہ یہ بھی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اس بات کی مکمل تصدیق کرے کہ اس کی ادا کردہ زکوٰۃ واقعی مستحق تک پہنچ گئی یا راستے ہی میں کسی اور جانب مڑ گئی۔ ہم نے اپنی زندگی بسر کرنے کا انداز کچھ ایسا اختیار کر لیا ہے کہ جس میں فعالیت اور عملیت کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے۔
محنت کش، ملازمت پیشہ حتیٰ کہ بے روزگار تک یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ ''ذرا فرصت نہیں۔'' آسان سے آسان طریقہ ہر شعبہ زندگی میں اپنانے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا کام کوئی اور کردے ہم اس کا معاوضہ ادا کردیں گے۔ اس صورت حال نے ایک طرف تو اچھی خاصی آمدنی بھی ضروریات زندگی پوری کرنے میں ناکافی ہوجاتی ہے اور دوسری جانب ایسے افراد بلکہ ادارے وجود میں آگئے ہیں جو آپ کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک تمام کام معاوضے پر کردیتے ہیں پھر معاوضے کے علاوہ آپ کی رقم میں بھی خورد برد (کمیشن کے علاوہ) کرتے ہیں جب کہ کام کا معیار بھی وہ نہیں ہوتا جو اگر آپ خود کرتے تو شاید آدھی رقم میں بڑی سہولت سے ہو جاتا اور معیاری بھی ہوتا کیوں کہ مال مفت دل بے رحم کے مصداق ذرا سے کام پر بڑی رقم بے دردی سے خرچ ہوجاتی ہے۔
یہ صورت حال تو ہمارے روزمرہ کے کاموں کی ہے مگر ہم زکوٰۃ و خیرات بھی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں جو آپ کو نہ صرف رسید دیں گے بلکہ پورا یقین بھی دلائیں گے کہ یہ رقم اصل مستحق پر ہی خرچ ہو گی لیکن وہ پھر جاتی کہاں ہے؟ اس کا علم کسی کو نہیں ہو پاتا۔ جب انسان اپنی ذمے داری دوسروں کے کاندھے پر ڈالتا ہے تو وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ جب ہم اپنا فرض خود ادا نہیں کر سکتے تو دوسرا کچھ کرے گا تو اس میں کچھ نہ کچھ اپنا مفاد بھی تلاش کرے گا۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے ہماری ملکی معاشی حالت نہ سدھرنے کی۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تمام ہی لوگ لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں، مخلص افراد ناپید ہیں۔ جو کچھ تھوڑا بہت فلاحی کام ہو رہا ہے وہ ایسے ہی مخلص اور بے لوث افراد کے دم قدم سے جاری ہے۔
یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ہم عبادت کرتے ہیں، خیرات دیتے ہیں اور فلاحی کام بھی کرتے ہیں مگر عبادت اور کار خیر کی روح سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سے افراد اس سے بے خبر ہیں کہ یہ عبادات ہم پر کیوں فرض کی گئی ہیں۔ اس میں منشائے ربانی کیا ہے، وہ ہماری اس عبادت کے ذریعے ہماری معاشرتی تربیت کا کس طرح بندوبست کر رہا ہے؟
ماہ رمضان المبارک تو اپنے اختتام پر ہے۔ اس ماہ کی عبادت (روزہ) کے انعام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے عید کا اہتمام کیا ہے اگر مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو عید بھی ہمارا ایک امتحان اور تربیت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نماز عید اور فطرہ کی ادائیگی کا حکم فرمایا گیا ہے۔ فطرہ کی رقم کے لیے ضروری ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو مستحق تک پہنچ جائے اور فضیلت یہ ہے کہ قبل اس کے کہ کوئی آپ کے در پر آکر مانگے تو آپ اس کو رقم ادا کریں بلکہ آپ خود حقدار کو تلاش کرکے جلد ازجلد رقم اس تک پہنچائیں تاکہ کسی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں سب کے ساتھ شامل ہوسکے۔
جو صاحب حیثیت اور مخیر حضرات اپنے مرحومین کے نام پر یا اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر غربا میں لباس اور اشیائے خوردونوش تقسیم کرتے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ اعلان کرکے گلی میں غربا کا مجمع لگا کر دھکم پیل میں راشن تقسیم نہ کریں (سال گزشتہ ایسی صورتحال میں گلشن اقبال میں دو خواتین جاں بحق اور کئی بری طرح زخمی ہوچکی ہیں) وہ خاموشی سے عید سے کئی روز قبل یہ تمام اشیا ضرورت مندوں کو خود پہنچائیں تاکہ حقیقی معنوں میں ضرورت مندوں کی بروقت ضرورت پوری ہوسکے۔
ذرایع ابلاغ حقیقتاً عوام کی آواز ہیں انھیں بھی ملک کی اکثریت کی نمایندگی کا حق ادا کرنا چاہیے۔ رمضان کے پروگرامز جو مختلف چینلز پر پیش کیے گئے ان میں بھی ہم نے دیکھا کہ جہاں لوگوں کی مذہبی رہنمائی کی گئی اور خدمت خلق کے جذبے کا اظہار کیا گیا وہیں بڑی حد تک دکھاوا، نمائش اور لوگوں کی عزت نفس بھی مجروح کی گئی۔ مگر زیادہ جذبہ کارخیر کا ہی غالب رہا اب چاہے لوگ اس کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور سمجھیں۔ عید کے تین دن تمام چینلز صرف ہلا گلہ، محفل موسیقی اور طرح طرح کے قیمتی ملبوسات کی نمائش کرکے قوم کی درست عکاسی نہیں کرتے حقیقت جب کہ اس کے برعکس ہے کہ ہمارے یہاں اکثریت کے پاس نہ نیا لباس ہوتا ہے اور نہ پیر میں ثابت جوتا تو پھر یہ کیسی عوامی نمایندگی ہوئی؟
رمضان کے پہلے ہی عشرے سے اخبارات میں جگہ جگہ لگائی جانے والی قیمتی ملبوسات اور زیورات، آرائش خانہ کی اشیا کے بارے میں فیچر نما خبریں شایع کی جا رہی ہیں جو عید سعید کی اصل روح کے نہ صرف منافی ہے بلکہ قوم کے درمیان محبت یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا بھی قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ محروم و مجبور لوگ ان اشیا کو صرف دیکھ سکتے ہیں اعلیٰ طبقے کو استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں مگر وہ خود ان کو خریدنے کی ہمت ہی نہیں کرسکتے جب کہ بعض عاقبت نااندیش مائیں مانگ کر قرض لے کر اپنے بچوں کو نئے کپڑے جوتے دلا تو دیتی ہیں مگر پھر سال بھر اپنی محنت و مشقت کی کمائی قرض ادا کرنے میں لگا دیتی ہیں۔ کاش ہمارے ذرایع ابلاغ سادگی و کفایت شعاری کا جذبہ بھی لوگوں میں پیدا کریں۔
واحد نظریاتی مملکت کی سرزمین بے گناہوں کے خون سے سیراب ہوتی رہی۔ جس زمین پر خون ناحق بہایا جائے وہاں رحمت و برکت کا نزول ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس ماہ رمضان میں نہ صرف نظر آنے کی حد تک برکت کسی جانب محسوس ہوئی اور نہ احساسات و جذبات کا روح پرور منظر نظر آیا۔ کسی بھی اسلامی مملکت میں اگر محض زکوٰۃ کا نظام درست ہو اور واقعی وہ مستحقین تک پہنچ جائے تو بزرگوں کا کہنا ہے کہ پانچ نہیں تو دس برس میں اس ملک میں ڈھونڈنے سے بھی زکوٰۃ لینے والے نہیں ملیں گے۔
لیکن ہمارا کیا پورے عالم اسلام کا یہ حال ہے کہ زکوٰۃ کا نظام موجود ہے پھر بھی غربت و افلاس روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اور ممالک کے بارے میں تو ہم وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن اپنے ملک کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ادا کر رہے ہیں لیکن وہ مستحقین کے بجائے کسی اور کی جیب میں جا رہی ہے ورنہ ہر سڑک، ہر چوراہے پر کئی کئی (زن و مرد بچے) گداگر لوگوں کا گزرنا محال نہ کرتے۔
دراصل اہم بات یہ بھی ہے کہ خیرات و زکوٰۃ دینے والے پر صرف یہ فرض نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام پر یا اس کی خوشنودی کے لیے دے رہا ہے بلکہ یہ بھی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اس بات کی مکمل تصدیق کرے کہ اس کی ادا کردہ زکوٰۃ واقعی مستحق تک پہنچ گئی یا راستے ہی میں کسی اور جانب مڑ گئی۔ ہم نے اپنی زندگی بسر کرنے کا انداز کچھ ایسا اختیار کر لیا ہے کہ جس میں فعالیت اور عملیت کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے۔
محنت کش، ملازمت پیشہ حتیٰ کہ بے روزگار تک یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ ''ذرا فرصت نہیں۔'' آسان سے آسان طریقہ ہر شعبہ زندگی میں اپنانے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا کام کوئی اور کردے ہم اس کا معاوضہ ادا کردیں گے۔ اس صورت حال نے ایک طرف تو اچھی خاصی آمدنی بھی ضروریات زندگی پوری کرنے میں ناکافی ہوجاتی ہے اور دوسری جانب ایسے افراد بلکہ ادارے وجود میں آگئے ہیں جو آپ کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک تمام کام معاوضے پر کردیتے ہیں پھر معاوضے کے علاوہ آپ کی رقم میں بھی خورد برد (کمیشن کے علاوہ) کرتے ہیں جب کہ کام کا معیار بھی وہ نہیں ہوتا جو اگر آپ خود کرتے تو شاید آدھی رقم میں بڑی سہولت سے ہو جاتا اور معیاری بھی ہوتا کیوں کہ مال مفت دل بے رحم کے مصداق ذرا سے کام پر بڑی رقم بے دردی سے خرچ ہوجاتی ہے۔
یہ صورت حال تو ہمارے روزمرہ کے کاموں کی ہے مگر ہم زکوٰۃ و خیرات بھی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں جو آپ کو نہ صرف رسید دیں گے بلکہ پورا یقین بھی دلائیں گے کہ یہ رقم اصل مستحق پر ہی خرچ ہو گی لیکن وہ پھر جاتی کہاں ہے؟ اس کا علم کسی کو نہیں ہو پاتا۔ جب انسان اپنی ذمے داری دوسروں کے کاندھے پر ڈالتا ہے تو وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ جب ہم اپنا فرض خود ادا نہیں کر سکتے تو دوسرا کچھ کرے گا تو اس میں کچھ نہ کچھ اپنا مفاد بھی تلاش کرے گا۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے ہماری ملکی معاشی حالت نہ سدھرنے کی۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تمام ہی لوگ لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں، مخلص افراد ناپید ہیں۔ جو کچھ تھوڑا بہت فلاحی کام ہو رہا ہے وہ ایسے ہی مخلص اور بے لوث افراد کے دم قدم سے جاری ہے۔
یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ہم عبادت کرتے ہیں، خیرات دیتے ہیں اور فلاحی کام بھی کرتے ہیں مگر عبادت اور کار خیر کی روح سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سے افراد اس سے بے خبر ہیں کہ یہ عبادات ہم پر کیوں فرض کی گئی ہیں۔ اس میں منشائے ربانی کیا ہے، وہ ہماری اس عبادت کے ذریعے ہماری معاشرتی تربیت کا کس طرح بندوبست کر رہا ہے؟
ماہ رمضان المبارک تو اپنے اختتام پر ہے۔ اس ماہ کی عبادت (روزہ) کے انعام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے عید کا اہتمام کیا ہے اگر مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو عید بھی ہمارا ایک امتحان اور تربیت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نماز عید اور فطرہ کی ادائیگی کا حکم فرمایا گیا ہے۔ فطرہ کی رقم کے لیے ضروری ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو مستحق تک پہنچ جائے اور فضیلت یہ ہے کہ قبل اس کے کہ کوئی آپ کے در پر آکر مانگے تو آپ اس کو رقم ادا کریں بلکہ آپ خود حقدار کو تلاش کرکے جلد ازجلد رقم اس تک پہنچائیں تاکہ کسی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں سب کے ساتھ شامل ہوسکے۔
جو صاحب حیثیت اور مخیر حضرات اپنے مرحومین کے نام پر یا اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر غربا میں لباس اور اشیائے خوردونوش تقسیم کرتے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ اعلان کرکے گلی میں غربا کا مجمع لگا کر دھکم پیل میں راشن تقسیم نہ کریں (سال گزشتہ ایسی صورتحال میں گلشن اقبال میں دو خواتین جاں بحق اور کئی بری طرح زخمی ہوچکی ہیں) وہ خاموشی سے عید سے کئی روز قبل یہ تمام اشیا ضرورت مندوں کو خود پہنچائیں تاکہ حقیقی معنوں میں ضرورت مندوں کی بروقت ضرورت پوری ہوسکے۔
ذرایع ابلاغ حقیقتاً عوام کی آواز ہیں انھیں بھی ملک کی اکثریت کی نمایندگی کا حق ادا کرنا چاہیے۔ رمضان کے پروگرامز جو مختلف چینلز پر پیش کیے گئے ان میں بھی ہم نے دیکھا کہ جہاں لوگوں کی مذہبی رہنمائی کی گئی اور خدمت خلق کے جذبے کا اظہار کیا گیا وہیں بڑی حد تک دکھاوا، نمائش اور لوگوں کی عزت نفس بھی مجروح کی گئی۔ مگر زیادہ جذبہ کارخیر کا ہی غالب رہا اب چاہے لوگ اس کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور سمجھیں۔ عید کے تین دن تمام چینلز صرف ہلا گلہ، محفل موسیقی اور طرح طرح کے قیمتی ملبوسات کی نمائش کرکے قوم کی درست عکاسی نہیں کرتے حقیقت جب کہ اس کے برعکس ہے کہ ہمارے یہاں اکثریت کے پاس نہ نیا لباس ہوتا ہے اور نہ پیر میں ثابت جوتا تو پھر یہ کیسی عوامی نمایندگی ہوئی؟
رمضان کے پہلے ہی عشرے سے اخبارات میں جگہ جگہ لگائی جانے والی قیمتی ملبوسات اور زیورات، آرائش خانہ کی اشیا کے بارے میں فیچر نما خبریں شایع کی جا رہی ہیں جو عید سعید کی اصل روح کے نہ صرف منافی ہے بلکہ قوم کے درمیان محبت یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا بھی قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ محروم و مجبور لوگ ان اشیا کو صرف دیکھ سکتے ہیں اعلیٰ طبقے کو استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں مگر وہ خود ان کو خریدنے کی ہمت ہی نہیں کرسکتے جب کہ بعض عاقبت نااندیش مائیں مانگ کر قرض لے کر اپنے بچوں کو نئے کپڑے جوتے دلا تو دیتی ہیں مگر پھر سال بھر اپنی محنت و مشقت کی کمائی قرض ادا کرنے میں لگا دیتی ہیں۔ کاش ہمارے ذرایع ابلاغ سادگی و کفایت شعاری کا جذبہ بھی لوگوں میں پیدا کریں۔