افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے

دین اسلام جس کی بنیاد ہی تعلیم ہے، اسی تعلیم سے خواتین کا زیادہ تر حصہ مکمل طور پر محروم ہے


ویب ڈیسک January 03, 2025

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

اسلام کے عورتوں کے دیے گئے حقوق میں سے سب سے بڑا حق ’’تعلیم‘‘ کا ہے۔ اسلام میں مرد و عورت کے سیکھنے اور سکھانے کے یکساں حقوق و فرائض ہیں۔ کلام الٰہی کا آغاز ہی ’’اقراء‘‘ سے ہوتا ہے۔ رسول اللہ کو علم حاصل کرنے کی دعا فرمائی گئی، پھر فرمان نبویؐ کے مطابق ’’جو شخص علم حاصل کرنے کےلیے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے‘‘۔ (ترمذی 2646) کے تحت اسلام علم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض کردیا گیا۔

تعلیم عورت کو باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ بااختیار بھی بناتی ہے۔ اسلامی تاریخ کی پوری چودہ سو سالہ تاریخ ان مسلم خواتین علما سے بھری پڑی ہے۔ جو نہ صرف عورتوں کو بلکہ مردوں کو بھی علم سکھا رہی تھیں۔ کیمبرج اسلامک کالج کی ایک تحقیق کے مطابق پیغمبر اسلام سے لے کر آج تک 9000 سے بھی زائد خواتین اسکالرز کی سوانح حیات ملتی ہیں جنہوں نے دین کے مختلف شعبوں میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔

ابتدائے اسلام میں پانچ خواتین اُم کلثومؓ، عائشہ بنت سعدؓ، مریم بنت مقدادؓ، شفا بنت عبد اللہؓ، عائشہ بنت ابی ابکرؓ پڑھی لکھی تھیں۔ حضرت ابوبکر کی بیٹی اور پیغمبر اسلام کی اہلیہ حضرت عائشہؓ نے بنی نوع انسان کےلیے دو ہزار دو سو دس احادیث پیش کیں۔ حضرت عائشہؓ حدیث اور فقہ کی عالم، ایک معلم، خطیب اور قرآن کی ایک عظیم ترجمان بھی تھیں۔ ان کے زمانے کی عورتیں ہمیشہ اپنے سوالات لے کر ان کے پاس جاتی تھیں۔ وہ اچھی یادداشت کی حامل ذہین شخصیت تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ عائشہؓ کا دماغ تیز تھا اور ان کا فیصلہ بہت اچھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ پڑھاتی رہیں اور ان کی 200 سے زائد طالبات تھیں۔ اس وقت مدینہ میں بہت سے مرد موجود ہونے کے باوجود دوسرے مرد صحابہ بھی ان سے سیکھنے جاتے۔ وہ اولین ماہر اسلام تھیں۔ اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اپنی فقاہت کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کےلیے مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں۔

عمرہ پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ کے بعد آنے والی نسل کے عظیم علماء میں سے تھے۔ وہ ام المومنین عائشہؓ بنت ابی بکر کی طالبہ تھیں۔ اسلامی احکام (فتاویٰ) دینے والی اور ماہر حدیث کے طور پر مشہور ہوئیں۔ ام الدرداء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسری نسل کے سرکردہ مسلم علماء میں سے ایک تھیں۔ وہ ایک اہم حدیث، مترجم، استاد، فقیہ اور قرآن کی ماہر تھیں۔ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ اور سلمان الفارسی اور ابو ہریرہ سمیت دیگر صحابہ کرام سے ملاقات کی اور ان سے حدیثیں نقل کیں۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مدینہ میں گزارنے کے بعد، وہ دمشق چلی گئیں جہاں مردانہ حصے میں درس دیا کرتی تھیں۔ انہوں نے سیکڑوں طلباء کو پڑھایا، مرد اور خواتین دونوں، اور ان میں سے بہت سے اپنے طور پر معزز علماء بن گئے۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک عبدالملک بن مروان بھی تھے۔

عائشہ بنت احمد بن محمد بن قدیم 10 ویں صدی کے اواخر کی سب سے زیادہ علمی اسکالرز میں سے ایک تھیں۔ قرآن مجید کی بہت سی نقلیں تیار کیں۔ فاطمہ محمد الفہری (متوفی 880 عیسوی) کو خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے دنیا کے پہلے تعلیمی ڈگری دینے والے ادارے کی بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جس یونیورسٹی کی بنیاد رکھی وہ آج بھی قراویین یونیورسٹی کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اصل ادارہ مسجد تھا جو ایک تعلیمی ادارے میں تبدیل ہوا۔ یونیسکو کے مطابق یہ ڈگریاں دینے والا سب سے قدیم ادارہ ہے، اور اس طرح یہ پہلی اور قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔

زینب بنت احمد (متوفی 1339 عیسوی) 14ویں صدی میں ایک نامور اسلامی اسکالر تھیں۔ وہ حنبلی مکتب فقہ سے تعلق رکھتی تھی اور دمشق میں رہتی تھی۔ انھوں نے مختلف شعبوں میں بہت سی سندیں حاصل کیں، لیکن خاص طور پر علوم حدیث میں۔ آپ نے صحیح بخاری، صحیح مسلم، مالک بن انس کا موطا اور سنن ترمذی جیسی کتابیں پڑھائیں۔ شمالی افریقی سیاح ابن بطوطہ (متوفی 1369 عیسوی) اس کے شاگردوں میں سے ایک تھا۔

فاطمہ بنت ابراہیم ابن جوہر (14ویں صدی عیسوی) نے حدیث کا پورا بخاری مجموعہ پڑھایا اور اس قدر مشہور تھیں کہ جب بھی وہ مکہ کی زیارت کے لیے جاتیں تو پوری مسلم دنیا کے علماء سے ان کے درسی حلقوں میں شامل ہونے کی درخواست کرتے۔ امام ذہبی اور امام سبقی کو اس نے پڑھایا۔ فاطمہ سے اکثر مدینہ کی مسجد نبوی میں پڑھانے کی درخواست کی جاتی تھی۔

فاطمہ کو الشیخہ الفضلیہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور وہ ایک فقیہ اور حدیث کی مشہور عالم تھیں۔ عرب میں پیدا ہوئی، انہوں نے خطاطی اور دیگر اسلامی علوم میں تعلیم حاصل کی اور ان میں مہارت حاصل کی لیکن انہیں حدیث میں خصوصی دلچسپی تھی۔ انھوں نے بہت سے اساتذہ کے ساتھ حدیث کی تعلیم حاصل کی اور آخر کار اپنے طلباء کو پڑھانا اور اسناد دینا شروع کر دیں۔ جب وہ مکہ میں آباد ہوئیں تو انھوں نے ایک پبلک لائبریری کی بنیاد رکھی، اور اس کے لیکچرز میں بہت سے نامور مرد اسکالرز نے شرکت کی جن میں عمر الحنفی اور محمد صالح بھی شامل تھے۔

اکیسویں صدی میں استاد مریم امیر نبن پوری دنیا سے قرآن حفظ کرنے والی خواتین کی فعال طور پر میزبانی کرتی ہیں، اور وہ قاریہ کی تخلیق کار ہیں، ایک ایسی ایپ جس میں دنیا بھر سے خواتین قرآن کی تلاوت کرنے والوں کو شامل کیا گیا ہے۔

ان کے علاوہ بے شمار مسلم اسکالرز اسلام کی خدمت میں شامل رہیں اور آج بھی ہیں۔ مگر گزشتہ برسوں سے مسلم خواتین اسکالرز اتنی سرگرم عمل نہیں جتنا کہ پہلے تھیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہماری خواتین کا اسلامی مزاج کہیں کھو گیا ہے، خاص کر پاکستانی معاشرہ میں۔ آج عورتیں معاشرے کا نصف سے زیادہ حصہ ہیں۔ ہماری آج کی عورت کہیں الجھ گئی ہے۔ دین اسلام جس کی بنیاد ہی تعلیم ہے اسی تعلیم سے خواتین کا زیادہ تر حصہ مکمل طور پر محروم ہے۔ پھر ان خواتین سے ان کی اولاد کیسے علم سے بہرہ مند ہوگی؟

یقین کریں آج معاشرے کی جہالت میں نصف سے زیادہ حصہ ہی جاہل خواتین کا ہے، جو نہ علم کے بغیر باشعور ہوسکیں نہ بااختیار۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر مسلم خواتین اسکالرز کو حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ دیگر خواتین میں اسلام کو مکمل روشناس کروا سکیں۔

آج ایک اسلامی ملک افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ طالبان کا یہ اقدام اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں