جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی زندگی کو سہل بنا دیا ہے وہیں اس نے تفتیشی عمل میں بھی انقلابی کردار ادا کرتے ہوئے اندھے کیسز کو بھی حل کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا میں بھی 43 سال قبل کیے گئے قتل کے مجرم کو ڈی این اے کی مدد سے شناخت کرلیا گیا۔
1981 میں خاتون ویٹرس، ڈیبرا لی ملر کو ایک شخص نے برتن سے مار مار کر قتل کر دیا تھا لیکن اس اندھے قتل کا قاتل دہائیوں تک پولیس کی پہنچ سے دور رہا تھا۔
تاہم اب اتفاقیہ طور پر مجرم پولیس کے ہاتھ آیا بھی تو کس حال میں آیا۔ یہ حیران کن کارنامہ بھی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انجام پایا۔
گزشتہ ماہ مینز فیلڈ پولیس کے ساتھ غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں ایک ملزم گرفتاری کے وقت فرار کی کوشش کے دوان مقابلے میں مارا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ملزم جیمز وینسٹ کے ڈی این اے سے انکشاف ہوا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے 29 اپریل 1981 کو خاتون کو قتل کیا تھا۔
پولیس کا مزید کہنا تھا کہ قتل کے وقت جیمز وینسٹ کی عمر 26 سال تھی جس سے اُس وقت بھی تفتیش کی گئی تھی تاہم وہ پولیس کی نگاہ سے بچ نکلا تھا۔
مینس فیلڈ پولیس چیف نے اُس وقت کی گئی ناقص تفتیش کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس کیس میں بہت سے شواہد کو چھوڑا اور ممکنہ ملزمان کے تعین میں شدید غلطیاں کیں۔
اسسٹنٹ پراسیکیوٹر نے بتایا ہے کہ 1981 میں ہی قاتل کا ڈی این اے مقتولہ کے باورچی خانے میں برتنوں اور اوون سے ملا تھا جو 40 سال تک محفوظ رکھا گیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ تاہم اُس وقت پڑوسی جیمز وینسٹ جو اصل قاتل بھی تھا۔ شک کے دائرے سے باہر رہا اس لیے پولیس نے اس کا ڈی این اے نہیں کرایا تھا۔
بعد ازاں 2021 میں اس کیس پر جدید فرانزک ٹیکنالوجی کی مدد سے دوبارہ تفتیش کا آغاز کیا گیا تھا۔ جس میں 43 سال قبل محفوظ کیے گئے ڈی این اے کی ری انجینیئرنگ کی گئی تھی۔