انقلابِ فرانس کا نسوانی پہلو

چشم ِتصوّر کو وا کیجیے اور خود کو پیرس کے میدانِ انقلاب (اب میدانِ امن) میں پائیے


تشنہ بریلوی July 25, 2014
[email protected]

چشم ِتصوّر کو وا کیجیے اور خود کو پیرس کے میدانِ انقلاب (اب میدانِ امن) میں پائیے۔ آپ ماضی میں ہیں اور سال ہے 1793ء۔ انقلابِ فرانس کا ہیبت ناک نشان یعنی گیلوٹین نصب ہے۔ شاہ پرست خاندان کے خاندان چھکڑوں میں لاد کر یہاں لائے جا رہے ہیں اور قتل کیے جا رہے ہیں۔ لیکن صرف شاہ پرست ہی نہیں انقلاب ِفرانس کا جنونی ڈکٹیٹر بہت سے عالموں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار چکا ہے۔ مگر اس وقت ایک عورت کی گردن اس خوفناک مشین میں فٹ کی جا رہی ہے۔

بھاری بھرکم بلیڈ بجلی کی رفتار سے نیچے گرتا ہے اور فوراً عورت کا سر الگ ہو کر ٹوکری میں جا گرتا ہے۔ یہ خاتون ہے مادام اولنپ دا گوژ (OLYMPE DE GOUGES) جو 45 سال کی عمر میں حقوقِ نسواں کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرتی ہے۔ وہ ایک قصاب کی بیٹی ہے اور انقلابِ فرانس کے قصاب رابز پیئر کے ہاتھوں ذبح کی جاتی ہے لیکن یہ دیہاتی اور کم پڑھی لکھی خاتون فرانس کی ہیروئن جون آرک (LA PUCELLE) کی طرح تاریخ فرانس میں ایک روشن ستارے کی طرح دمک رہی ہے۔

جب14 جولائی 1789ء کوغضب ناک شہریوں نے ظلم کی علامت قلعۂ باستیا (BASTILLE) پر دھاوا بولا تو تاریخِ عالم کا ایک زبردست موڑ سامنے آیا۔ انقلاب فرانس کے بارے میں اتنا زیادہ لکھا گیا ہے کہ بیان سے باہر لیکن ایک اہم پہلو پر کم توجہ دی گئی ہے۔ اس انقلاب میں عورتوں کا حصہ۔ حقیقت یہ ہے کہ فرانس کی خواتین نے انقلاب کو کامیاب بنانے میں اور بادشاہت کو ختم کرنے میں ایک بے حد اہم رول ادا کیا۔انقلاب کے شروع ہونے پر فرانس کی عورتوں کی خوشی کوئی انتہا نہیں تھی۔

انقلاب سماج کے تیسرے درجے (THIRD ESTATE) کی نمایندگی کر رہا تھا۔ جو کلیسا (FIRST ESTATE) اور اشرافیہ (SECOND ESTATE) کے خلاف صف آرا ہوا تھا۔ عورتیں بھی خود کو تیسرے درجے میں شمار کرتی تھیں اور بہت پر امید تھیں کہ اب ان کی آزادی کا لمحہ آ چکا ہے۔ انھیں یقین تھا کہ پرانے نظام (ANCIEN REGIME) کے ختم ہوتے ہی ظلم و جبر کا دور ماضی کا حصہ بن جائے گا اور نئے نظام میں سب کو برابر کے حقوق اور برابر مواقعے حاصل ہوں گے۔

عورتیں بھی ''آزاد'' ہو کر معاشرے کی ترقی کے لیے بھر پور کردار ادا کرسکیں گی اور مردوں کی طرح وہ بھی معزز شہری بن جائیں گی۔ فرانس کی عورتوں کو پورا یقین تھا کہ انقلابِ فرانس کے بہت سے رہنما روسن خیال اور ترقی پسند ہیں جو یقیناً عورتوں کا ساتھ دیں گے مثلاً کائونٹ میرا بو (MIRABEAU) دیمولیں (DESMOULINS)' ژاں مارا (MARAT) اور خصوصاً امریکی جنرل لافایت (LAFAYETTE) جس نے فرانس اور امریکا میں تین انقلابوں میں حصہ لیا۔

جلد ہی فرانس کی خواتین کی خوشی میں مزید اضافہ ہوا۔ انقلابیوں نے ایک جمہوری منشور منظور کیا جو مساوات کے اصولوں پر مبنی تھا۔ اس کا نام تھا:

''اعلانِ حقوق ِانساں و حقوقِ شہریاں''

نئی قومی اسمبلی نے اسے 26 اگست کو پاس کر دیا۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہیں جو ان کا پیدائشی حق ہیں اور تمام انسان پیدائشی طور پر برابر ہیں اور آزاد ہیں (یہاں عظیم فلسفی روسو کے الفاظ کا سہارا لیا گیا تھا جس نے کہا تھا(:

L'HOMME EST NE' LIBRE,ET PARTOUT IL EST DANS LES FERS

فرانس کی خواتین نے اس نئے منشور' اس زبُورِ آزادی کا پر جوش خیر مقدم کیا۔ یہ سوچ کر کہ ''حقوقِ انساں'' میں وہ بھی شامل ہیں اس لیے کہ وہ بھی انسان ہیں۔ اس موقعے پر مادام گوژاور مادام رولاں نے اطمینان کا سانس لیا مگر جلد ہی طلسم ٹوٹ گیا اور یہ حقیقت بجلی کی طرح ان پر گردی کہ مردوں نے ایک بار پھر عورتوں کو دھوکا دیا ہے اور انسان (HOMMES) صرف مرد ہیں۔ عورت (FEMME) کا اس منشور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ انسان اور ''نسواں'' میں بہت فرق ہے۔

ادھر فرانس کی خواتین سرگرم عمل تھیں اُدھر ایک رحم دل ڈاکٹر انسانی مساوات کو فروغ دینے کے لیے کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ''زندگی مشکل ہے تو ہونے دو۔ کیوں نہ موت کو آسان بنا دیا جائے (مردوں اور عورتوں کے لیے' امیروں اور غریبوں کے لیے' عالموں اور جاہلوں کے لیے' جوانوں اور بوڑھوں کے لیے) لہذا اس نیک دل ڈاکٹر نے جس کا نام ''ژوزف گئیوتین'' (JOSEPHE GUILLOTIN) تھا' یہ مشین ایجاد کی تا کہ کم از کم موت میں سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔

انقلاب کے شروع ہوتے ہی فرانس کی خواتین بھی میدان عمل میں آ گئیں انھوں نے قلعۂ باستیا کے معرکے میں پوری طرح حصہ لیا۔ انقلابی بھی دو طرح کے تھے، وردی والے اور وردی کے بغیر جنھیں SANS-CULOTTES کہا جاتا تھا۔ بغیر وردی والے انقلابی ہی زیادہ پر جوش تھے اور انھوں نے قربانیاں بھی زیادہ دیں۔ فرانس کی عورتیں ایسے ہی انقلابیوں میں شامل تھیں۔ مزید برآں جب اکتوبر 1789 میں شاہ اور ملکہ فرار ہو کر پیرس سے گیارہ میل دور ورسایا کے سنہری محل میں پناہ گزیں ہو گئے تو سات ہزار عورتوں کا ایک مسلح ہجوم روانہ ہوا اور شاہ اور ملکہ کو واپس پیرس لے آیا۔

یہ انقلاب کی کامیابی کے سلسلے میں ایک بے حد اہم واقعہ تھا مگر عورتوں کی اس عظیم خدمت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ستم پر ستم یہ ہوا کہ جب 1791ء میں نیا قومی دستور وضع کیا گیا تو اس میں بھی عورتوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا۔ جب انقلابی رہنمائوں سے اس سلسلے میں بات کی گئی تو انھوں نے ''بے ضمیر روشن خیال'' لوگوں کی طرح کندھے اچکا دیے۔ایک بہادر خاتون اس توہین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہ تھی ماری گوژ (GOUGES)۔

اس کا باپ دیہاتی قصاب تھا اور ماں دھوبن تھی۔ لڑکی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ادیبہ بنے گی لہذا اس نے خود تعلیم حاصل کی' اپنا قلمی نام (OLYMPE) رکھا اور پیرس جا کر مادام رولاں کے حلقہ (SALON) میں شامل ہوگئی۔ مادام رولاں ایک وزیر کی بیوی تھی اور وہ انگلینڈ کی باکمال خاتون اور حقوقِ نسواں کی علمبردار میری وال اسٹو ن کرافٹ سے بہت متاثر تھی۔ یہ انگریز خاتون شاعر شیلی کی ساس، پراسرار ناول فرینکلن اشٹائن FRANKENSTEIN کی مصنفہ کی ماں اور انارکسٹ تحریک کے بانی کی بیوی تھی۔ اس نے شاہ پرست ایڈمنڈ برک کی تقریروں کے جواب میں دو انقلابی کتابیں لکھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔

مادام گوژ نے اپنا منشور حقوق نسواں پیش کیا جس میں زور دیا گیا تھا کہ عورتیں بھی آزاد پیدا ہوئی ہیں اور برابر کی شہری ہیں۔ انقلابی رہنمائوں خاص کر ڈکٹیٹر رابز پیئر نے مادام گوژ کے منشور کو پسند نہیں کیا۔ نیز جولائی 1793ء میں ایک بہادر خاتون شارلت کوردے (CORDAY) نے انقلابی رہنمائوں ژاں ماراJEAN MARATکو چاقو مار کر قتل کردیا ۔ ژاں مارا جو پستول لہراتے ہوئے تقریر کرتا تھا ڈکٹیٹر رابز پیئر کا گوئبلز کی طرح دست راست تھا۔ بس پھر کیا تھا قتل و غارت کا وہ دور شروع ہوا کہ جسے LA GRANDE TERREUR کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مادام گوژکے قتل کا حکم صادر ہوا اور اس کی گردن پر گئوتین کا وزنی بلیڈ گرا ۔ یہی بلیڈ شاہ لوئی اوراس کی ملکہ ماری انتوانیت کی گردن پر بھی گرا اور فرانس کے عظیم سائنسدان' جدید علم کیمیا کے بانی لاواسیا (LAVOISIEUR)کی گردن پر بھی گرا ۔ خود انقلاب کے بہت سے رہنمائوں کو بھی اس نے ملکِ عدم کی راہ دکھائی اور بالآخر اس خوفناک بلیڈ نے انقلاب کے ظالم ترین رہنما رابز پئیر کا سر بھی تن سے جدا کرکے حساب برابر کیا:

ظلم پھر ظلم ہے برباد تو ہونا ہے اسے

قوم ہے قید میں آزاد تو ہونا ہے اسے

(تشنہ ؔ)

مادام گوژ اور مادام رولاں نے تو اپنا کام کر دیا لیکن قسمت فرانس کی عورتوں پر مہربان نہیں ہوئی۔ جلد ہی نپولین بوناپارٹ برسر اقتدار آ گیا اور 1804ء میں بادشاہت بحال کر کے اس نے اپنا بدنام کوڈ (CODE NAPALEON) (ہدایت نامہ شہریاں) جاری کر دیا جس میں عورتوں سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ وہ خود کو گھروں تک محدود رکھیں اور مردوں کی تابعداری کریں۔ فرانس کی طرح دار خواتین (CHIC DAMES) کو پورے 140 سال مزید انتظار کرنا پڑا جب 1944ء میں جرمن فوجوں سے فرانس کی آزادی کے وقت جنرل ڈیگال نے عورتوںکو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔)

مادام گوژ کے کارنامے اور قربانی کو ساری دنیا سراہتی ہے۔ فرانس میں ایک چوراہا اس کے نام سے بنا دیاگیا ہے اور چونکہ اس کی ''باقیات'' حاصل نہیں ہو سکیں اس لیے علامتی طور پر اسے فرانس کے ''قومی قبرستان'' (PANTHEON) میں دفن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں