نیوزچیلنز میں عمران خان کا نام لینے پر پابندی سے متعلق پیمرا کا مؤقف آگیا

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں پیمرا حکام نے تفصیلی بریفنگ دی اور سوالات کے جوابات دیے


ویب ڈیسک January 03, 2025
فوٹو: فائل

اسلام آباد:

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے حکام نے ڈس اور مس انفارمیشن قانون کی وضاحت کردی ہے اور کہا ہے کہ نیوز چینلز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کا نام لینے پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین سینیٹر علی ظفر کی زیرصدارت اسلام آباد میں ہوا جہاں پیمرا کی کارکردگی پرڈائریکٹر جنرل آپریشنز پیمرا محمد طاہرنے بریفنگ دی اور بتایا کہ پیمرا ایکٹ 2002 میں بنایا گیا تھا اور اس کے تحت نجی چینلز کو لائسنس دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے پیمرا کے قانون میں ٹی وی چینلز کے ملازمین کی تنخواہوں اور بقایا جات کا مسئلہ حل کرنا شامل نہیں تھا تاہم اب قانون میں ترمیم ہوچکی ہے اوراب پیمرا ٹی وی چینلز کے ملازمین کو تنخواہیں اور بقایا جات نہ ملنے پر قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کے شکایات سیل میں وفاق اور چاروں صوبوں کے نمائندے کی نشستیں دو سال سے خالی ہیں، پی بی اے کی طرف سے شکیل مسعود اور پی ایف یوجے کی طرف سے اظہر عباس جتوئی ابھی ممبران شکایات سیل ہیں۔

اس موقع پر سینیٹر سرمد علی نے پوچھا کہ اگر پیمرا دو،دوسال شکایات سیل کے عہدے خالی رکھے گا تو شکایات کیا حل کرے گا، چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ خالی نشستوں پر بھرتی کا عمل جاری ہے امید ہے اگلے ماہ مکمل ہوجائے گا۔

ڈائریکٹر جنرل آپریشنز پیمرا محمد طاہرنے کہا کہ پاکستان میں 85 چینلز کو لائسنس دیے گئے ہیں، 35 غیر ملکی چینلز کو لینڈنگ رائٹس دیے گئے ہیں، ٹی وی چینل کو 10 سے 20 سال تک کے لیے لائسنس دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی لائسنس کے لیے کم سے کم فیس 5کروڑ روپے رکھی گئی ہے، ٹی وی لائسنس فیس کے مقابلے کا انعقاد کیا جاتا ہے اور 2019 میں 7 نیوز چینلز کو لائسنس دیے گئے۔

محمد طاہر نے کہا کہ 2019 میں ایک ٹی وی لائسنس کی کم سے کم 28کروڑ روپے بولی دی گئی، ایک نیوز، 365، 89، کے این این نے 28 کروڑ روپے فی کس کے لائسنس لیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چند مذہبی چینلز بغیر لائسنس کے چل رہے ہیں، جس پر سینیٹر سرمد علی نے سوال کیا کہ پیمرا کیا کررہا ہے کہ بغیر لائسنس کے چینل چل رہے ہیں، تاہم پیمرا حکام نے بتایا کہ عدالتوں میں مذہبی چینلز کے خلاف ہم قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں۔

پیمرا حکام کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کی ایسے مذہبی چینلز کی پشت پناہی کرتی ہیں اس لیے عدالتیں ان مقدمات کے فیصلوں سے گریز کر رہی ہیں، جس پر سینیٹر سرمدعلی نے کہا کہ پھر تو ہمیں بھی ڈرنا چاہیے کہ مذہبی معاملہ قرار دے کر ہمارے گلے میں ہی نہ پڑ جائے۔

 

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس میں بریفنگ کے دوران ڈی جی آپریشنز محمد طاہر نے بتایا کہ پہلے قانون میں مس انفارمیشن یا ڈس انفارمیشن موجود نہیں تھا، اب 2023 میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کو قانون میں شامل کرلیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف قانون میں کردی گئی ہے، جان بوجھ کر اور دوسرے فریق کا مؤقف لیے بغیر ذاتی عناد یا مفاد کی بنیاد پر کسی کے خلاف خبری مواد چلانا ڈس انفارمیشن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کی 124 شکایات موصول ہوئی تھیں اور اب تک45 درخواستیں زیر التوا ہیں۔

کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ 2023 میں ڈاکٹر شاہد مسعود کا چینل چند دنوں کے لیے بند کیا تھا، دیگر چینلز کو بھی غلط خبر دینے پر کچھ عرصے کے لیے بند کیا گیا۔

سینیٹر عون عباس بپی نے پیمرا حکام سے پوچھا کہ کیا پیمرا نے حکومت کی کسی اتھارٹی کے خلاف ڈس انفارمیشن پر کارروائی کی، اب حکومت کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے میں اگر ثبوت پیش کروں کہ یہ وزیر اطلاعات کی ڈس انفارمیشن ہے تو کیا کارروائی کریں گے۔

ڈی جی آپریشنز پیمرا نے کہا کہ آپ شکایات کونسل کو ثبوتوں کے ساتھ درخواست دیں گے تو اسے شکایات کونسل دیکھے گی، چینلز کو ڈے میکانزم لگانا ہوتا ہے۔

ڈی جی آپریشنز پیمرا نے کہا کہ آرٹیکل 27 کے تحت ہائی کورٹ نے الطاف حسین کی تقریر پر پابندی لگائی تھی، اس موقع پر سینیٹر عون عباس بپی نے پوچھا کہ کیا عمران خان کا نام لینا یا تحریک انصاف پر پابندی لگائی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر کے سوال پر پیمرا حکام نے جواب دیا کہ پیمرا نے کسی چینل کو عمران خان کا نام لینے پر کوئی پابندی نہیں لگائی، ہم ریگولیٹری اتھارٹی ہیں، ہم نے کسی پر پابندی عائد نہیں کی۔

عون عباس بپی نے کہا کہ کسی کو تو ذمہ داری لینی چاہیے، کمیٹی کے چیئرمین علی ظفر کا کہنا تھا کہ چینلز کو بلایا جائے اور بتائیں کہ کس نے پابندی لگائی ہے۔

پرویز رشید نے کہا کہ فریڈم آف ایکسپریشن کی بات ہوگی تو کسی کو نہیں کہہ سکتے، ایجنڈا اپ کے دکھوں کی ترجمانی نہ کرتا ہو بلکہ میرے دکھوں کی بھی ترجمانی کرتا ہو۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اظہار رائے قومی معاملہ ہے اس پر سب کو مل کر چلنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں