کراچی کے مسائل کب حل ہوں گے؟

پانی انسانی زندگی کے لیے بنیادی عنصرکا درجہ رکھتا ہے۔


عثمان دموہی January 04, 2025

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی و صنعتی اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہ شہر پاکستان کے تمام شہروں میں آبادی کے لحاظ سے بھی سرفہرست ہے۔ اس تین کروڑ سے زائد آبادی کے شہر سے ہی حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس وصول ہوتا ہے اور یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ اس ٹیکس سے ہی ملک کے 75 فی صد اخراجات پورے ہوتے ہیں، اگر کراچی کے سیاست دان فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ان کا شہر ہی ملک کو چلا رہا ہے تو یہ کسی طرح بھی غلط نہیں ہے۔

حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ کراچی سے وصول ہونے والے محصولات پر ملک کے اخراجات اور ترقیاتی کاموں کا انحصار ہے۔ جب یہی صورت حال ہے تو پھر اس شہرکو کیوں مسائل کا گڑھ بنایا گیا ہے۔ حکومت اس شہر کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہے کہ یہاں پانی، بجلی، گیس جیسی بنیادی سہولیات کا ہمیشہ سے فقدان ہے، پھر ان مسائل سے بڑھ کر چوریوں، ڈکیتیوں، اغوا اور دہشت گردی کے وبال نے شہری کی زندگی کو متاثرکیا ہے۔

پانی انسانی زندگی کے لیے بنیادی عنصرکا درجہ رکھتا ہے۔ ویسے تو اس شہرکو شروع سے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے مگر حالیہ دنوں میں پانی کی لائنوں کے پھٹنے کے تواتر سے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ کیسی پائپ لائنیں ہیں جو ذرا سے پریشر سے پھٹ جاتی ہیں اور اس سے شہر کا ایک بڑا حصہ پانی سے محروم ہو جاتا ہے۔

تاہم یہ کیا بات ہے کہ لائنوں کے پھٹنے کے بعد بھی ٹینکروں کو پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ یہ مہنگے داموں پانی فروخت کرتے ہیں اور واٹر کارپوریشن خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لگتا ہے ٹینکروں سے کمائی کے لیے پانی کی لائنوں کو جان بوجھ کر ہی خراب کیا جاتا ہے۔ یہ تو عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔

یہ شہر صرف ایک ہی ظلم نہیں برداشت کر رہا ہے بلکہ اس شہر کے اور بھی کئی مسائل ہیں جن میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی بندش بھی اہم مسئلے ہیں۔ شہر کے کئی علاقے بجلی سے محروم رہتے ہیں اور طویل لوڈ شیڈنگ سے بہت لوگ پریشان ہیں مگر بجلی کے ریٹ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے ریٹ تو ایک طرف اوور بلنگ بھی ایک گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے۔ بجلی کا ادارہ تو جو ستم کر رہا ہے وہ اپنی جگہ ہے اس کے افسران اور نچلا اسٹاف بھی اوور بلنگ کے ذریعے عوام کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔

اب جب سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ آئی پی پیز (IPP's) ہیں، عوام کی تو ان تک پہنچ نہیں ہے البتہ چند سیاسی پارٹیوں نے عوامی خدمت سمجھ کر حکومت کو گھیرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ مہنگی بجلی پیدا کرنے کے ذمے داران افراد کے گرد گھیرا ڈالے، ان کے عوام کش منافع کو کم کرائے۔

حکومت اس سلسلے میں پہلے تو بہت تذبذب میں تھی کہ کیا کرے، کیونکہ اس کے اپنے لوگ اس زیادتی میں شامل ہیں پھر باہر کے آئی پی پیز کو اپنا منافع کم کرنے کے لیے راضی کرنا کوئی آسان کام تو نہیں تھا، تاہم حکومت نے عوامی احتجاج اور غصے کو دیکھتے ہوئے اب کئی آئی پی پیز کو مناسب منافع کمانے اور اپنے پرانے معاہدوں کی تجدید کرانے کے لیے راضی کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی نے کئی احتجاجی مارچ اور دھرنے منعقد کیے ہیں جن سے بھی حکومت بہت متاثر ہوئی ہے اور اس نے یہ وعدہ بھی کر لیا ہے کہ وہ بہت جلد بجلی کے ریٹ کم کر دے گی تاہم اب اس وعدے کو کئی ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک کوئی اچھی خبر نہیں آئی ہے۔

ایم کیو ایم نے بھی بجلی کے نرخ کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر اس کے مطالبے پر بھی حکومت کوئی کان نہیں دھر رہی ہے۔ یہ پارٹی چونکہ حکومت کا حصہ ہے اس لیے عوام اس سے کافی امیدیں لگائے ہوئے ہیں مگر ایم کیو ایم کی کوششیں بھی ابھی تک رنگ نہیں لائی ہیں۔ اس کے کافی نمایندے سندھ اور قومی اسمبلی میں موجود ہیں چونکہ ان کے منشور کا بنیادی نکتہ کراچی کے عوامی مسائل کو حل کرنا ہے۔ وہ اس سلسلے میں دونوں اسمبلیوں میں کراچی کے مسائل کو حل کرانے کے لیے اپنی آواز بلند کرسکتی ہے مگر وہ اس وقت اپنے اندرونی مسائل میں اس طرح الجھی ہوئی ہے کہ لگتا ہے کہ عوامی مسائل کو بھلا ہی بیٹھی ہے۔

 اس سرد موسم میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ حالانکہ گیس کمپنی کی جانب سے یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ گیس کی کمی نہیں ہے تو پھر گیس کی لوڈ شیڈنگ کیوں جاری ہے؟ ادھر کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ٹریفک کی روانی میں خلل کے علاوہ یہ صورت حال شہر میں کئی حادثات کا سبب بنی ہے۔

کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں کئی کم سن بچے بھی شامل ہیں۔ پھر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ دن کے وقت ہیوی ٹریفک کا شہر کی سڑکوں پر دندنانا سمجھ سے باہر ہے کیونکہ ہیوی ٹریفک کو پہلے ہی رات کے وقت گزرنے کی اجازت دی گئی جب کہ دن میں ان کی آمد و رفت پر پابندی عائد ہے۔ شہر میں قبضہ مافیا بھی بلا روک ٹوک زمینوں پر قبضہ کرنے میں مصروف ہے۔ ویسے تو شہر کی کئی زمینوں پر ناجائز قبضہ جاری ہے مگر شہر میں سب سے زیادہ قبضہ مافیا کا شکار گلشن ہجری ہے۔

یہاں کئی سوسائٹیز پر قبضہ ہو چکا ہے گوکہ عدالتوں میں قبضہ مافیا کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں مگر برسوں بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے، زمینیں اب بھی الاٹیز کو نہیں مل سکی ہیں انھی سوسائٹیز میں مشرقی کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی بھی شامل ہے جس پر چالیس سال سے قبضہ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے، گوکہ کورٹ کئی مرتبہ زمین کو خالی کرانے کے لیے انتظامیہ کو حکم دے چکی ہے مگر افسوس کہ عدالتی حکم پر اب تک کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔

کراچی کا ایک بڑا مسئلہ روز بہ روز بڑھتے ہوئے جرائم بھی ہیں۔ چوریاں، ڈکیتیاں اور دہشت گردی تو اپنی جگہ اس وقت سب سے زیادہ اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔ شہر کا کوئی بھی علاقہ ان وارداتوں سے بچا ہوا نہیں ہے۔ موبائل فون اور نقدی کو شہریوں سے ہتھیانے پر مزاحمت پر انھیں قتل کرنے کی وارداتوں نے اس شہر کے ماضی کی امن پسندی کے قصوں کو دھندلا کر کے رکھ دیا ہے۔

اب تو کراچی کے شہری خود کو قطعی غیر محفوظ ہی سمجھتے ہیں گوکہ شہر میں پولیس کی کمی نہیں ہے مگر اب اسے کیا کہا جائے کہ کئی وارداتوں میں یہی لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہر میں سیکیورٹی کے نظام سے عوام قطعی مطمئن نہیں ہیں۔ اغوا برائے تاوان کے کیسز بھی شہر میں عام ہیں۔ یہ سب دراصل ملزمان کو قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ کاش کہ سندھ حکومت اپنے بڑے کماؤ پوت شہر کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کرے تو اس سے نہ صرف شہرکا معیار بلند ہوگا بلکہ اس سے اس کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں