مذاکرات کا کچھ نہ کچھ نتیجہ نکلنا چاہیے 

پی ٹی آئی دو مطالبات سے دستبردار ہوگئی ہے جن کو حکومت کی طرف سے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جانا تھا


[email protected]

اسیر رہنما کو آخر اپنا روایتی موقف بدل کر اپنی پارٹی کو کہنا پڑا کہ وہ موجودہ حکومت سے مذاکرات شروع کریں اور پہل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے کچھ رہنما مذاکرات کی پہلی نشست میں شریک ہوئے جو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوئے جو مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومتی کمیٹی میں مختلف پارٹیوں کے رہنما شامل ہیں اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی میں ان کے اپنے رہنما اور دو حلیف شامل ہیں۔حکومت سے مذاکرات کرنے والوں میں وزیر اعلیٰ کے پی بھی شامل ہیں اور پی ٹی آئی کی مذاکرات کے سلسلے میں سنجیدگی پہلے اجلاس میں ہی نظر آگئی تھی کہ جس میں چند ہی پی ٹی آئی رہنما موجود تھے اور ان کے پاس وہ مطالبات بھی نہیں تھے جن پر حکومت سے مذاکرات ہونے تھے۔

مذاکرات سے قبل خصوصی عدالت نے عمران خان کو سزا سنانی تھی جو کسی وجہ سے موخر کر دی گئی جس کو بھی پی ٹی آئی نے غلط رنگ دیا جس کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پی ٹی آئی اپنے دو مطالبات سے دستبردار بھی ہوگئی ہے جن کو حکومت کی طرف سے کسی صورت بھی تسلیم نہیں کیا جانا تھا جن کی واپسی پی ٹی آئی کا ایک مثبت اقدام تھا باقی دو مطالبات میں اہم مطالبہ پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی اور مقدمات کی واپسی ہے اور فوجی عدالتوں سے نو مئی کے سلسلے میں جن 85 پی ٹی آئی کارکنوں کو سزا سنائی گئی ہے وہ فوجی عدالتوں کا فیصلہ پی ٹی آئی نہ ماننے کا اعلان کر چکی ہے جو ایک احمقانہ فیصلہ ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے سزاؤں کو نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سزاؤں کے خلاف اپیلیں اعلیٰ عدالتوں نے سن کر فیصلہ دینا ہے جس کی تیاری پی ٹی آئی کے وکیلوں نے کرنی ہے اور تمام نامور وکیل بانی پی ٹی آئی کے مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی سے تعلق نہ رکھنے والے بڑے وکلا لاکھوں روپے فیس وصول کر چکے ہیں اور فیس وصول نہ کرنے والے پی ٹی آئی کے وکلا معاوضے میں پارلیمنٹ میں پہنچ چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور وزیر اعلیٰ کے پی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے بانی کی رہائی چاہتے ہیں اور مذاکرات میں ان کا پہلا اور اہم مطالبہ بظاہر تو اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی ہے اور ان کے نزدیک سب سے اہم رہائی بانی پی ٹی آئی کی ہے اور محض دکھائوے کے لیے اپنے رہنماؤں و کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ ان کی پہلی ترجیح ہے۔

کچھ رہنماؤں کو بھی عدالتوں سے سزا ہو چکی ہے زیادہ کے مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں ان کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی ہیں اور وہ پارٹی قیادت کی طرف سے نظرانداز کیے جانے کا شکوہ بھی کر چکے ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی کا کوئی اہم رہنما ان سے ملنے نہیں گیا تو دوسرے اسیر رہنماؤں کو بھی کوئی پوچھتا ہے نہ انھیں کوئی ملنے جاتا ہے اور سب کی توجہ صرف اپنے بانی سے ملاقاتوں پر مرکوز ہے اور وہی بانی کی نظر میں اپنے نمبر بڑھانے میں لگے ہیں۔

 بالاتروں کی طرف سے صاف جواب ملنے کے بعد بانی پی ٹی آئی اسی حکومت سے مذاکرات پر مجبور ہوئے ہیں جس کو وہ فارم 47کی غیر قانونی حکومت قرار دیتے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مذاکرات غیر مشروط ہونے چاہئیں اور وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملکی مفاد میں میثاق معیشت کریں۔

مذاکرات ظاہر ہے مل بیٹھ کر گپیں لگانے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ بعض شرائط پر ہی ہوتے ہیں، اسی لیے پی ٹی آئی نے مذاکرات کی دوسری نشست میں اپنے مطالبات پیش کر دیے ہیں جن پر غور ہونا ہی ہے۔

لگتا ہے کہ دونوں طرف کے بعض رہنما مذاکرات کی کامیابی نہیں چاہتے اور ملک میں جاری سیاسی کشیدگی برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔ حکومتی وفد واضح کر چکا ہے کہ پی ٹی آئی کا رہائی کا مطالبہ حکومت نہیں مان سکتی اور عدالتوں سے ہی رہائی ممکن ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بانی سمیت دیگر پر سیاسی بنیاد پر بے بنیاد مقدمات حکومت نے بنوائے ہیں وہ حکومت پہلے واپس لے مزید مقدمات نہ بنائے اور مذاکرات میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے خلوص اور سنجیدگی دکھائے اور پی ٹی آئی بھی دیکھے کہ کون سے مقدمات حکومت واپس لے سکتی ہے اور کون سے مقدمات حکومت واپس لے کر پی ٹی آئی کو ریلیف دے سکتی ہے۔

ڈھائی سال سے جاری سیاسی کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔ دونوں فریقوں کو ضد چھوڑ کر سنجیدہ اور قابل عمل مذاکرات کرنے ہوں گے اور جب مذاکرات پر دونوں آمادہ ہیں تو ’’ کچھ لو، کچھ دو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کامیاب کرکے کچھ نہ کچھ اچھا نتیجہ نکالنا ہی ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں