اب تو مرنا ’’ہی‘‘ روا لگتا ہے

زمین کو سانپ اتنا ڈس چکے ہیں کہ اب پیدا بنی آدم نہ ہونگے


[email protected]

اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ یہ کیا ہورہا ہے ، کرم میں کیا ہورہا ہے ، بلوچستان میں کیا ہورہا ہے ،اسلام آباد میں کیا ہورہا ہے ، پاکستان میں کیا ہورہا ہے تو ہم ترنت جواب دے سکتے ہیں کہ ’’کٹائی‘‘ ہو رہی ہے ۔ گزشتہ پون صدی سے اس ملک یااس کھیت میں ’’نفرتوں‘‘ کی جو بوائیاں ہورہی تھیں، ان کی کٹائی کا وقت ہوچلا ہے اورکٹائی شروع ہو چکی ہے۔

ویسے تو کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی بنیاد ایک ’’نظرئیے‘‘ پر رکھی گئی ہے لیکن اس ملک میں ہونے والی ہر بات کی طرح یہ بھی ایک جھوٹ ہے کیوں کہ ملک قائم ہونے کے بعد سب کچھ ہے لیکن نظریہ کہیں بھی نظر نہیں آتا، کیوں کہ اس ملک کے سیم و تھور زدہ علاقے میں کوئی نظریہ اگ نہیں سکتا ، یہاں صرف شخصیات پیدا ہوتی ہیں ،ہیرو پیدا ہوتے ہیں ’’بانی‘‘پیدا ہوتے ہیں، دیوتا پیدا ہوتے ہیں، دیوتا زادے پیدا ہوتے ہیں، ظل اللہ اورظل الٰہی پیدا ہوتے ہیں۔ آپ ساری پارٹیوں پر نظر ڈالیں ایسی کوئی پارٹی ہے جس میں ہیرو، دیوتا اوردیوزادوں کے سوا کچھ اورہو، ایک بھی نہیں ۔

کچھ عرصہ پہلے تک ایک دو پارٹیوں پر نظر پڑتی تھیں لیکن اب وہاں بھی شخصیات کا مرض بڑھ چکا ہے بلکہ آخر میں جو ہیرو ،دیوتا اوربانی پیدا ہوا ہے، اس نے تو اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، اب تک اسے ایک غلط نام سے پکارا جاتا تھا لیکن یعنی صرف ایک پارٹی کا ’’بانی‘‘ کہا اورلکھاجاتا لیکن اب صرف ’’بانی‘‘ لکھا جاتا ہے جو بالکل درست ہے کیوں کہ وہ صرف ایک پارٹی کا بانی نہیں بلکہ اور بہت کچھ کا بانی ہے، جعلی ریاست مدینہ کا بانی، نقلی صادقوں امینوں کا بانی ، گلی ڈنڈوں ، تعویذگنڈوں اورمنڈے مسٹنڈوں کے ذریعے حکومت چلانے کا بانی، مطلب کہ

دامان نگہہ تنگ وگل حسن تو بسیار

مطلب یہ کہ قائد عوام (بروزن قائد اعظم) مرد حق اورکمانڈو کے بعد اگر کچھ بچاتھا پٹائی مارگئی، ایسے میں ہم سوائے اس کے اورکیا کہہ سکتے ہیں کہ

 نفرتوں کے تیرکھا کر دوستوں کے شہرمیں

 ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی

چنانچہ اب یہ ملک بانیوں، دیوتاؤں اور دیوتازادوں سے اتنا بھرچکا ہے کہ اس میں کہیں محبت کی ایک کونپل کے لیے بھی جگہ نہیں ہے

آجا کوئی ٹھکانہ بنائیں کسی جنگل میں

 جہاں جائیے، دیکھیے سنئے پڑھئیے نفرتوں کی تیز ہوائیں بلکہ آندھیاں چل رہی ہیں، ہرشخص دوسرے کے خون کاپیاسا ہورہاہے ،کہتے ہیں کسی نے بچھو سے پوچھا کہ تم میں بڑا کون ہے تو بچھو نے کہا جس کی دم کو ہاتھ لگائیں گے وہی بڑا نکلے گا

زمین کو سانپ اتنا ڈس چکے ہیں

کہ اب پیدا بنی آدم نہ ہونگے

 لیکن اگر آپ حسب معمول حسب عادت اور حسب روایت جلدی سے فیصلہ صادر کرتے ہوئے یہ سوچنے لگتے ہیں کہ قصور ان رنگے ہوئے سیاروں یعنی ہیروؤں کاہے تو غلط سوچ رہے ہیں ، پہلے کسی جگہ کسی چیزکی ضرورت یامانگ پیداہوتی ہے پھر وہاں وہ چیز پیدا ہوتی ہے ، مرض ہوتو اس کی دوا بازارمیں لائی جاتی ہے ،کوئی پاگل ہی ہوگا جو ایک نہ بکنے والی چیز بازار میں لائے، یہ کالانعام ہی ہیں جو کسی داروگر کے منتظر ہوتے ہیں، کسی شارٹ کٹ کے متلاشی ہوتے ہیں، کسی ’’چھومنتر‘‘ کی راہ تک رہے ہوتے ہیں، ظاہرہے یہ ایسا نہ کبھی ہواہے نہ ہوتا ہے، نہ ہوگا جو پلک جھپکنے میں پیراڈائز لاسٹ لاکر سامنے دھر دے کہ

اسکن انت وزو جک

 جاؤ اوراس جنت میں جو چاہو کھاؤ جو چاہو کرو۔ باغ یونہی اچانک زمین سے نہیں نکلتے ، اس کے لیے پہلے زمین ہموار کرنا پڑتی ہے، کھاد پانی کا انتظام کرنا پڑتا ہے، پھر بیج لاکر بونا پڑتے ہیں پھر جب وہ اگ آتے ہیں تو کھاد پانی دینا پڑتے ہیں، گوڈی نلائی کرنا پڑتی ہے، حفاظت اورمحنت کرنا پڑتی ہے تب کہیں جاکر اس پھول کو پھل لگتے ہیں لیکن آپ ایسے جادوگر یاآسمانی ہستی کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، وہ ہیرو، وہ جادوگر، وہ کرشمہ تو نہیں آتا لیکن کوئی نوسرباز آکر آپ کو باتوں کے مایاجال میں پھانس لیتا ہے، پھر لٹنے کے بعد کسی اورکی راہ تکنے لگتے ہیں

کارواں گزرا کیا ہم رہگزردیکھا کیے

ہرقدم پر نقش پائے راہبر دیکھاکیے

 رخ مری جانب نگاہ لطف دشمن کی طرف

 وہ ادھر دیکھا کیے گویا ادھر دیکھاکیے

 یہ ہیرو ،یہ کرشماتی ہستیاں یہ باتوں کے جادوگر کون ہوتے ہیں ۔ اسی ’’دودھ‘‘ کی بالائی ہی تو ہوتے ہیں ۔

اندھے پن کی انتہا تو یہ ہے کہ وہی ہوتے ہیں جو پہلے بھی آکرچلے گئے ہوتے ہیں، باربار آتے جاتے ہیں، آتے ہیں

گاڑی آتی ہے گاڑی جاتی ہے

گاڑی جاتی ہے گاڑی آتی ہے

 شارٹ کٹ مارنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے ہوناچاہیے اورہوتا رہے گا ۔

 بات کوپھر اسی مقام پرلاتے ہیں جہاں سے شروع ہوئی تھی یعنی یہ جو ہورہا ہے بالکل ٹھیک ہورہا ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ دوفقیروں کاایک کمبل میں گزارہ ہوسکتا ہے ، مگر دوباشاہوں کا ایک ملک میں ، دوہیروں کا ایک فلم میں اوردوبدمعاشوں کا ایک محلے میں گزارہ نہیں ہوسکتا اوریہاں تو بات سیکڑوں تک پہنچ چکی ہے، ظاہرہے جوقوم اتنے ہیرو اتنے بانی اوراتنے رہبرورہنما بنا لیتی ہے، وہ نفرتوں کی فصل نہیں کاٹیں گے تو کیاکاٹیں گے۔

کہاجاتا ہے کہ مومن کو ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا ہے اورکسی کو ایک سوراخ سے پون صدی میں ہزار بار ڈسا جاچکا ہو… اورپھر بھی اسے عقل نہ آئی ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ … وہ نہیں ’’وہ ‘‘ ہے اوراس کی کھوپڑی میں وہ نہیں جو ہوتا ہے بلکہ وہ ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔

بہرحال اب تو پلوں کے نیچے سے اتنا انی اور پلوں کے اوپر اتنی گاڑیاں گزرچکی ہیں کہ خود پل کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے اس چوپو ، ہورچوپو، کاٹو… کاٹتے رہو جو بویا ہے ۔ لیاکرو ان عطاروں کے انھیں لونڈوں سے دوائیں، جنھوں نے بستر مرگ پر پہنچایا ہے ، عطار اوران کے لونڈے کسی کو شفایاب کریں گے تو کھائیں گے کیا؟

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

اب تو مرنا ’’ہی‘‘ روا لگتا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں