پاکستان انفیکشنز بیماریوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، طبی ماہرین

ٹائیفائیڈ، کولیرا اور دیگر امراض آلودہ پانی اور ناقص صفائی کی صورت حال کی وجہ سے پھیل رہے ہیں، ماہرین کی پریس کانفرنس


دعا عباس January 04, 2025
فوٹو: فائل

کراچی:

طبی ماہرین نے پاکستان کو انفیکشنز بیماریوں کا سب سے بڑا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جراثیم میں ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو رہی ہے جو تشویش ناک صورت حال ہے۔

کراچی پریس کلب میں میڈیکل مائیکرو بائیولوجیکل اینڈ انفیکشیس ڈیزیز سوسائٹی آف پاکستان کے ماہرین نے پریس کانفرنس کے دوران ملک میں بڑھتے ہوئے مہلک امراض پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کردیا۔

ڈاکٹر سمیہ نظام الدین، ڈاکٹر نسیم صلاح الدین، ڈاکٹر ثنا انور، ڈاکٹر فیصل سلیم اور ڈاکٹر ثمرین نے پریس کانفرنس میں موجود تھیں، ڈاکٹر سمیہ نے خناق، پولیو، ریبیز اور ویسٹ مینجمنٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کمیونٹی میں مہلک امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے عوامی سطح پر آگاہی اور حکومتی پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔

ڈاکٹر نسیم نے انفیکشن ڈیزیز کو پاکستان کی سب سے بڑی مہلک بیماری قرار دیا اورکہا کہ یہ امراض قابل علاج اور قابل بچاؤ ہیں لیکن پاکستان میں ان پر قابو پانے کے اقدامات ناکافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افریقہ میں بھی نئی بیماریوں کا پھیلاؤ جاری ہے اور پاکستان میں ڈینگی اور چکن گونیا کے بعد زیکا کا خطرہ ہے، جو حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

ٹی بی کی تشویش ناک اقسام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب دماغ اور گردے کی ٹی بی کے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں۔

ڈاکٹر ثنا نے کہا کہ خسرہ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو بچوں کو اسکول جانے سے محروم کر رہا ہے حالانکہ یہ ویکسین سے قابل بچاؤ ہے۔

انہوں نے کراچی میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیروں کو بیماریوں کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹائیفائیڈ، کولیرا اور دیگر امراض آلودہ پانی اور ناقص صفائی کی صورت حال کی وجہ سے پھیل رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچرے کے ڈھیر نہ صرف بیماریوں کو جنم دے رہے ہیں بلکہ ان کے سبب آوارہ کتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، یہ کتے لوگوں کو کاٹ کر ریبیز کا سبب بن سکتے ہیں، جو کہ مہلک بیماری ہے، اگر ریبیز کے مریض کو ویکسین نہ لگائی جائے تو موت یقینی ہے۔

ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ ڈاکٹرز اس بات پر پریشان ہیں کہ اب مریض زیادہ بیمار ہوکر آ رہے ہیں اور ادویات کم ہوتی جا رہی ہیں، جراثیم ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر رہے ہیں، جس سے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ای پی آئی ویکسینیشن تناسب 90 فیصد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن میرے حساب سے یہ 35 فیصد تک ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر کیچ اپ مہمات اور بچوں تک رسائی ضروری ہے، سندھ میں خسرہ کے کیسز میں اضافے اور خناق کے کیسز دوبارہ منظر عام پر آنے پر ہم سب پریشان ہیں۔

ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ ویکسینیشن مہمات ضروری ہیں لیکن ان مہمات کے دوران بچوں تک رسائی یقینی بنانا زیادہ اہم ہے۔

پولیو کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے 68 کیسز رپورٹ ہوئے اور 60 فیصد اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔

کہ بلوچستان کے سیوریج سسٹم کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں صورت حال کا تعین مشکل ہے۔

ڈاکٹر سمرین نے کہا کہ خناق کے کیسز میں اس حد تک اضافہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا، یہ بیماری اب بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی دیکھی جا رہی ہے اور یہ دل پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

انہوں نے اینٹی ٹاکسن کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف چند سرکاری اداروں میں دستیاب ہے۔

ماہرین نے حکومت سے انسداد پولیو مہم مزید مؤثر بنانے، کچرے کے ڈھیر ختم کرنے، صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات بہتر بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان اقدامات کے بغیر بیماریوں پر قابو پانا ممکن نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں