بلوچستان، نوجوانوں کوگمراہ کرنے کی کوششیں

بلوچستان میں ہونے والی حالیہ دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث زیادہ تر افراد جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہیں


کنول زہرہ January 05, 2025

صوبہ بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کے لیے پاکستان کی سلامتی کے دشمن، بلوچ نوجوانوں کو اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف صوبے کے امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی تشویش کا باعث ہے۔

بلوچستان میں ہونے والی حالیہ دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث زیادہ تر افراد جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ یہ دہشتگرد تنظیمیں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انھیں ریاست کے مخالف کھڑا کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تنظیمیں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہدف بناتی ہیں۔ نوجوان ان تنظیموں کے جھوٹے وعدوں کا شکار ہو کر ان کی سازشوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ان کے اندر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے اور انھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے ذریعے اپنی قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ دہشتگرد تنظیموں نے اپنی حکمت عملی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے خواتین کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ شاری بلوچ، سمیعہ قلندرانی جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا جاچکا ہے جب کہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

بلوچ طالبعلموں کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں کا حصہ نہیں بننا چاہتے، لیکن انھیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ دہشتگردوں کے سہولت کار انھیں بلیک میل کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اگر وہ انکار کرتے ہیں تو انھیں اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر مار کر ان کی لاشوں کو پہاڑوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ ’’مسنگ پرسن‘‘ ہیں اور ان کی گمشدگی کا الزام ریاستی اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

صوبہ بلوچستان کے حقوق کی نام نہاد دعویٰ دار ایک پارٹی بلوچ قوم کو گمراہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے، یہ بات ریکاڈر کا حصہ ہے کہ بی وائی سی کی روح رواں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے نومبر 2024 میں ناروے کی شہر اوسلو میں ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی، جس میں شرکت کرنے کی بنا انھیں ایک ملین ڈالرز فراہم کیے گئے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس رقم کے 2.5لاکھ ڈالرز بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں، اس صورتحال سے واضح ہے کہ ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے بلوچ قوم کو استعمال کیا، اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے خونی سیاست کرتی ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو واپڈا میں ملازمت کے ساتھ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے رکن تھا جو 2011 میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے خلاف کارروائی میں مارا گیا تھا، ڈاکٹر ماہ رنگ لانگو کے والد بی ایل کا سرغنہ اور ریاست کا باغی تھا، جو ریاستی اداروں پر ہونیوالے ان گنت حملوں میں ملوث تھا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سرکاری وظیفے پر پلی بڑھی ہیں اور ابھی بھی سرکاری ڈاکٹر کے عہدے پر فائز ہیں پھر بھی ریاست کے خلاف پیش پیش ہیں، نوجوانوں کو سوچنا چاہیے، جس کے خون میں وفا نہیں ہے، وہ کیسے کسی کی خیر خواہ ہوسکتی ہے؟

9 نومبر 2024 کو کالعدم تنظیم کے رکن پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم طلعت عزیز نے بی ایل اے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم کی جانب سے پہاڑوں پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کر کے انھیں پنجابیوں اور نہتے لوگوں کو مارنے پر آمادہ کیا جا رہا تھا۔ پہاڑوں پر ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جنھیں لاپتہ افراد ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بلوچ نوجوان ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو ان کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔ طلعت عزیز کہا کہ پہاڑوں پر ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن کی تصویریں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے میں دیکھی تھیں جنھیں لاپتہ ظاہر کیا گیا ہے۔ میں بلوچ نوجوان کو کہتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو ان کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے 5 اگست 2024 کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی تخریب کاروں کی پراکسی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی نام نہاد لیڈر شپ کرمنل مافیا کی پراکسی ہے، اس پراکسی کو ایجنسیز کو بدنام کرنے کا کام دیا گیا ہے، بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھا جمع کرنا ان کا کام ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حرکات و سکنات سے صاف واضح ہے کہ وہ پاکستان کے استحکام کے مخالف ہیں، ان تخریبوں سے اپنے نوجوانوں کو بچانا ہر صورت ضروری ہے کیونکہ یہ عناصر نہ صرف ملک کے لیے بھی زہر قاتل ہیں بلکہ نسل بھی برباد کر رہے ہیں۔

یہاں یہ سوال بھی بنتا ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنا خوارج تنظیموں کے لیے آسان کیوں ہے؟ کیا وہاں کے لوگوں کو تعلیمی، معاشی اور بنیادی سہولیات کا حصول آسانی سے ممکن ہے، اگر صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر کے نوجوانوں کو فوری مناسب روزگار ملے، مہنگائی قابو میں ہو توکوئی بھی نوجوان کسی تخریبی سوچ کا آلہ کار نہیں بنے گا، بہرحال یہ کام حکومت نے کرنا ہے، امید ہے کہ وہ اس نکتے کو سنجیدہ لے اور نوجوانوں کے مستقبل کو روشن کر کے پاکستان کو محفوظ اور مضبوط بنائے۔

نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی ذمے داری ریاست کے ساتھ ساتھ والدین پر بھی عائد ہوتی ہے، والدین کو چاہیے کہ نوجوانوں کے روزمرہ کے معمولات پر نظر رکھیں، ان کی دلچسپی، دوستوں سے میل جول پر کڑی نظر رکھیں، والدین اور اساتذہ انھیں یہ شعور دیں کہ وہ کبھی بھی ریاست مخالف بیانیے کا حصہ نہ بنیں، اس کے ساتھ نوجوانوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی توانائیاں قوم کی ترقی کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔

بلوچستان میں دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں ایک سنگین مسئلہ ہیں جس کا سدباب ضروری ہے۔ بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اس قوم کا سرمایہ ہیں اور انھیں اس سرزمین کی حفاظت اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں