عابد شیروانی کی کتابیں، اقبالیات کے ذخیرے میں اضافہ

ڈاکٹر علامہ اقبال اور ان کی شاعری کو وہی لوگ پسند کرتے ہیں جن کو اسلام سے محبت ہوتی ہے


صدام ساگر January 05, 2025

ڈاکٹر علامہ اقبال اور ان کی شاعری کو وہی لوگ پسند کرتے ہیں جن کو اسلام سے محبت ہوتی ہے اور جو عالمِ اسلام کے مسلمانوں سے محبت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد شیروانی کا علامہ اقبال کو پسند کرنا بھی اس بات کی گواہی ہے کہ ان کے دل میں بھی مسلمانانِ عالمِ اسلام کی زبوں حالی کا غم ہے اور وہ روز بہ روز مسلمانوں کی بگڑتی حالت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی حالتِ زار پر کڑھتے بھی رہتے ہیں۔ ان ساری باتوں کا ثبوت ان کی تشریحاتِ منظوماتِ اقبال سے بھی مل رہا ہے۔

انھوں نے جو مسجدِ قرطبہ، شکوہ اور جوابِ شکوہ اور ابلیس کی مجلس شوریٰ کی تعبیرات اور تفسیریں کی ہیں ان سے بھی واضح ہورہا ہے کہ ڈاکٹر عابد شیروانی نے خود کو اقبال کے لیے وقف اور ان کے کلام کی تفسیر و تشریح کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار کرلیا ہے۔ اس تیاری میں انھوں نے تمام کلامِ اقبال کو نہ صرف پڑھا ہے بلکہ سمجھا بھی ہے اور یہ بات بھی شیروانی صاحب کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ وہ فارسی بھی جانتے ہیں جس کے سبب علامہ اقبال کے تمام فارسی کلام پر بھی ان کی گہری نظر ہے اور اقبال کی فارسی شاعری کے مطالعے سے وہ گزرے ہیں۔ اسی سے فکرِ اقبال ان کی رگ رگ میں سما گئی ہے اور پیغاماتِ اقبال ان کے دل میں راسخ ہوگئے ہیں۔

ملت اسلامیہ کے اس دانشور کی دانش مندانہ باتوں کو وہ پوری دنیا میں پھیلانا بھی چاہتے ہیں اور مفکر اسلام کی فکر کا پرچار بھی چاہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنا ہر پیغام مسلمانانِ برصغیر پاک و ہند اور مسلمانانِ عالمِ اسلام تک پہنچانے کے لیے شعری پیرایہ اختیار کیا ہے اس سے شیروانی صاحب کے کلامِ اقبال ہی کو اپنی سوچ و فکر کا مرکز و محور بنایا ہے اور اسی پیرائے کو لے کر چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر عابد شیروانی کی تینوں کتابیں، ’’اسپین، اقبال کا دوسرا خواب‘‘، ’’محمد سے وفا‘‘ اور ’’ابلیس سے جفا‘‘ تشریحات و تعبیرات کے سبب غیر معمولی نوعیت اختیار کر گئی ہے، جس میں عابد شیروانی کا تحقیقی اور مبصرانہ نکتۂ نظر بڑی وضاحت سے سامنے آگیا ہے۔

 اس منفرد نوعیت کے تنقیدی کارنامے نے ان کا نام ماہرینِ اقبالیات میں شامل کردیا ہے کیوں کہ شیروانی صاحب نے اپنی ناقدانہ نظر سے علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کو مزید اُجاگر کیا ہے اور ان کے فن اور شخصیت پر مزید روشنی ڈالی ہے جس کی وجہ سے تفہیمِ کلامِ اقبال آسان تر ہوگئی ہے اور ان کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ عابد شیروانی نے شاعر مشرق، شاعراسلام، مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان کی سوچ کی وسعت کو کھل کر بیان کیا ہے اور ان کی شعری عظمت کے روشن تر پہلو بیان کیے ہیں۔

عابد شیروانی نے جس طرح تینوں نظموں کی تفسیر و تشریح کی ہے، ان میں ان کی اعلیٰ تعلیمی صلاحیت بھی نظر آرہی ہے اور علم و دانش بھی۔ عابد شیروانی نے اپنی عقل و خرد اور ذہنی استعداد سے جو کام لیا ہے وہ قابلِ تعریف اور لائقِ صد ستائش ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قارئین اقبال، ڈاکٹر عابد شیروانی کی تشریحات و تعبیرات کے سبب ان کے بھی گرویدہ ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی تفہیمات و ادراک کے قائل بھی۔

شیروانی صاحب کی یہ علمی کاوش نوجوان طالبعلموں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی جس کی روشنی میں آنیوالی نسل بھی راہ پاسکے گی اور اپنی منزلِ مقصود کا تعین کرسکے گی۔  ڈاکٹر عابد شیروانی نے کلامِ اقبال کو دل میں راسخ کرنے کے بعد ان کے افکار کو لاشعور میں جذب کر لیا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ان افکارِ عالیہ کو وہ نہایت سلیس اور آسان فہم پیرائے میں قارئین، ناقدین، طالبانِ علم و ادب اور مشاہیر و محققین کے سامنے لا رہے ہیں، جو لوگ اقبال کی شاعری کو دقیق اور مشکل سمجھ کر چھوڑ رہے تھے، عابد شیروانی کی تشریحات سے وہ بھی کلامِ اقبال کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔

اقبال کی فکری کاوشوں کا ذکر عابد شیروانی نے بڑے محکم انداز میں کیا ہے جو قارئین کے دلوں میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ ہم عابد شیروانی کی پہلی کاوش کو اقبال شناسی، دوسری کو تفہیم اقبال اور تیسری کاوش کو فکرِ اقبال کی تفسیر سے تعبیر کرسکتے ہیں، کیوں کہ علامہ اقبال وہ واحد شاعر ہیں جن کے دل میں ملتِ اسلامیہ کا سب سے زیادہ درد تھا اور وہ مسلمانانِ عالم اسلام کی زبوں حالی پر تڑپتے رہتے تھے کیوں کہ اقبال کی نظر میں ملتِ اسلامیہ کا وہ وقار بھی تھا جب وہ آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرتے تھے اور شان و شوکت سے جیتے تھے اور امروز مسلمان ذلیل و خوار ہو رہے تھے تو اقبال نے خصوصاً مسلمانانِ پاک و ہند کی غیرت کو جگانے کے لیے سخن کا سہارا لیا اور ان کو بتایا کہ تمہارے آباؤ اجداد کیا تھے اور تم کیا ہو۔

عابد شیروانی نے علامہ اقبال کے اس درد اور تڑپ کو دل سے محسوس کیا اور دانش مندانہ قدم اُٹھایا کہ وہ اقبال کی اس فکر و پیغام کا پرچار کریں اور آج کے طالبعلم اور نوجوانوں کو اقبال کے ادبِ عالیہ سے آشنا کریں اور ان کے افکارِ عالیہ کو اس دور کے نوجوان اور طالب علموں کے اذہان و قلوب میں راسخ کریں تاکہ وہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کی پھر سے تگ و دو کریں۔ عابد شیروانی کے اس دانش مندانہ قدم اور دانائی کے سیکڑوں لوگ گرویدہ ہوچکے ہیں اور روز بہ روز ان کے مداحین میں اضافہ در اضافہ ہورہا ہے۔

عابد شیروانی نے اس بات پر بھی توجہ دی ہے کہ علامہ اقبال نے عقل کی بات نہ ماننے اور دل کے مشورے پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے یعنی عشق کو اپنا رہبر و رہنما بنایا ہے۔ اس لیے اقبال نے کہا:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

 اقبال کسی الگ نظریے کے حامل نہ تھے بلکہ ان کی فکر و نظر کا مرکز و محور دینِ اسلام اور نقوشِ پائے رسولﷺ اور احادیثِ نبویﷺ تھیں جن کی روشنی میں انھوں نے اپنے پورے کلام کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ روحِ قرآن کو سمجھتے ہیں اور اس سے علمیت کا نور لے کر پُرنور ہوتے ہیں۔ ان کا دل عشق مصطفیﷺ سے لبریز ہے اور وہ شعارِ اسلامیہ سے سرشار نظر آتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر و ترجمہ اور اس کی سمجھ بوجھ ہی نے اقبال کو اقبال بنایا تھا۔ اسی لیے ان کے تمام کلام میں اسلام، تاریخ اسلام اور اسلامی تفہیمات کی بھرمار ہے۔

عابد شیروانی نے کلامِ اقبال کی انھی تمام خوبیوں اور اوصاف کو اُجاگر کیا ہے۔ اقبال کا ایک نعتیہ خیال یاد آ رہا ہے کہ:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے

عابد شیروانی ایک وسیع المطالعہ فرد ہیں جن کی نظر میں ادبِ عالیہ کا رس سمایا ہوا ہے، وہ کلاسیک کی روح سے واقف ہیں اور اُردو ادب عالیہ سے واقف بھی ہیں، وہ زبان و بیان پر خاصی دسترس رکھتے ہیں۔ ان کا مزاج تلاش وجستجو سے معمور ہے۔ ان میں تنقید لکھنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ عابد شیروانی کی یہ تینوں کتابیں بھی اُردو ادبِ عالیہ میں شمار ہوں گی کیوں کہ ان سے نہ صرف اقبالیات کے ذخیرے میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اُردو ادب کا دامن بھی مالا مال ہوا ہے اور یہ تاریخ اُردو ادب کا حصہ بھی بنے گا۔

کسی بھی تحریر میں چند خوبیاں اسے اچھا بناتی ہیں اور یہی بعض خوبیاں عابد شیروانی کی نثر نگاری کو ضرور بڑا بنا دیں گی کیوں کہ وہ تواتر سے لکھ رہے ہیں اور تسلسل سے اپنے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اپنی نثر نگاری کے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ حتی المقدور اپنے نثری ادب کو کلامِ اقبال کی مزید تشریحات کی تازہ کاری سے سجانے میں مصروف ہیں جس نے ان کو عہد حاضرکے معتبر نثر نگاروں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں