1729 میں، جوناتھن سوئفٹ نے آئرلینڈ کی بڑھتی ہوئی غربت کو حل کرنے کے لیے ایک معمولی تجویز دی تھی۔بچوں کو کھاؤ۔’’ایک جوان صحت مند بچہ، جس کی اچھی طرح پرورش کی جاتی ہے، ایک سال کی عمر میں، ایک انتہائی لذیذ، پرورش بخش اور صحت بخش کھانا ہوتا ہے‘‘ اس نے تیاری کے طریقوں کو ٹھنڈک کے ساتھ درج کرتے ہوئے لکھا ’’چاہے اسٹو، بھنا، سینکا ہوا، یا ابلا ہوا ہو۔‘‘ سوئفٹ صرف تفریح کے لیے اشتعال انگیز نہیں تھا۔
اس کا مضمون ایک استرا تیز طنز تھا جس کا مقصد انگلش پالیسیوں پر تنقید تھا جو آئرش کو ڈسپوز ایبل سمجھتی تھیں۔ پر سکون طریقے سے ایک معاشی حل کے طور پر نسل کشی کی تجویز پیش کرتے ہوئے، سوئفٹ نے انگریز حکمران طبقے اور جاگیرداروں کی انتہائی بے حسی کو بے نقاب کیا جو پہلے ہی ’’زیادہ تر والدین کو کھا چکے ہیں۔‘‘
سوئفٹ، ایک اینگلوآئرش پادری اور آئرش کاز کے تاحیات چیمپیئن، نے کڈجل کی طرح طنز کیا۔ ایک معمولی تجویز نے قارئین کو اپنے ہی ظلم کا سامنا کرنے پر چونکا دیا، اخلاقی بے حسی کو ایک مضحکہ خیز مذاق میں بدل دیا۔ کچھ خوفزدہ تھے۔ دوسرے، سوئفٹ کے کاٹنے والی عقل کو پہچانتے ہوئے،گھبرا کر ہنسے اور بات سمجھ آئی گئی۔ جیسا کہ اس نے ایک بار طنزکیا تھا، ’’طنز ایک قسم کا شیشہ ہے، جس میں دیکھنے والے عام طور پر ہر کسی کے چہرے کو تلاش کرتے ہیں مگر ان کے اپنے۔‘‘ آخر میں، سوئفٹ کی ذہانت صرف اپنے سامعین کو بے چین کرنے میں نہیں تھی بلکہ یہ انھیں یہ دکھانا تھا کہ وہ پہلے ہی کتنے ہی شیطانی ہوچکے ہیں۔
مارول پرانے رومیوں کی طرح حب الوطنی کا جذبہ رکھتا تھا اس نے کیمرج میں ڈین بی کے ساتھ تعلیم پائی تھی جو آگے چل کر برطانیہ کے شاہ چارلس دوم کا مشیرہ بنا مارول پہلے تو بادشاہ کا حامی تھا لیکن جب شاہ چارلس دوم کی بدعنوانیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور ملک میں بدامنی، رشوت ستانی اور ظلم کا بازار گرم ہوا تو مارول نے نہایت بے باکی سے بادشاہ اور اس کے اہل دربار پر سخت تنقیدیں کیں اور ہجویں شایع کیں۔
اس کی تحریریں جب بادشاہ کی نظر سے گزری تو بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح اسے اس رویے سے باز رکھے دھمکیاں، خوشامدیں،لالچ، دولت اور حسن کے جال یہ سب اس پر اثر ڈالنے میں ناکامیاب ثابت ہوئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مارول پر حسن، دولت، رشوت، خوف، مصائب غرض کسی چیزکا جادو نہیں چل سکتا تھا آخر کارمار ول کا پرانا ہم جماعت لارڈ ڈین بی ایک دن ملنے کے بہانے اس کے گھر آیا اور اسے ہاتھ ملانے کی غرض سے جاتے وقت ا س کے ہاتھ میں ایک ہزار پونڈ کا چیک دے کر چلنے لگا۔
مارول نے اس سے ایک منٹ ٹہرنے کی التجا کی اور فوراً اپنے خدمت گارکو بلا کر پوچھا’’کل شام تم نے کیا پکایا تھا‘‘ نوکر نے جواب کہ ’’جناب کو تو معلوم ہی ہے کہ کل شام میں نے آپ کے لیے گوشت پکایا تھا‘‘ مارول نے پھر سوال کیا کہ ’’آج شام کے لیے کیا بندوبست کیا ہے‘‘ نوکر نے کہا کہ ’’آپ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آج شام کے لیے کل والے گوشت میں سے بچائی ہوئی ہڈیاں بھون لی جائیں‘‘ پھر مارول لارڈڈین بی سے مخاطب ہو کر بولا ’’حضور نے سن لیا میرے گھر میں شام کے کھانے کا سامان موجود ہے آپ کا چیک آپ کو مبارک ہو حکومت کو چاہیے کہ اپنے مطلب کے آدمی کہیں اور تلاش کرے میں حکومت کا آلہ کار نہیں ہوں۔
مارویل نے مرتے دم تک شرافت کا ثبوت دیا اور وہ ایماندار جیا اور ایمانداری کی حالت میں مرا، اس کی قبر پر آج بھی یہ الفاظ کنندہ ہیں ’’یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے نیک آدمی محبت کرتے تھے برے آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی۔‘‘
سررابرٹ والپول کے دور وزرات میں پلیٹنی حزب مخالف کا لیڈر تھا، دارالعلوم میں تقریرکرتے ہوئے اس نے ایک لاطینی فقر ہ ادا کیا۔ سررابرٹ والپول نے اس فقرے میں غلطی بتائی اور یہ شرط کی کہ اگر فقرہ صحیح ہوتو میں ایک گنی دوں گا، شرط قبول کی گئی اور لاطینی کتابوں سے رجوع کرنے پر معلوم ہوا کہ پلیٹنی کا فقرہ صحیح تھا۔
وزیراعظم نے شرط کے مطابق ایک گنی میز پر رکھ دی پلیٹنی نے اسے اٹھاتے ہوئے دارالعلوم کے ارکان سے کہا کہ ’’صاحبو! گواہ رہنا کہ یہ سرکاری خزانے کا پہلا سکہ ہے جسے میں لے رہا ہوں‘‘ یہ سکہ آج تک برٹش میوزیم میں پلیٹنی کی گنی کے نام سے محفوظ ہے۔
عظیم شاعر گولڈ اسمتھ جب تک جیا غریب ہی رہا اور مرتے دم تک بھی غربت اور قرض اس کے رفیق تھے تاہم دنیا کی دولت اسے خریدنے سے قاصر رہی، اس نے کبھی حکومت کا آلہ کار بننا گوارہ نہ کیا۔ حقیر سیاسی نظموں اور صحافت سے اسے ہمیشہ عار رہا۔ سررابرٹ والپول کے دور وزارت میں پانچ لاکھ روپے سالانہ کی خفیہ رقم سیاسی پروپیگنڈے کے لیے مخصوص تھی ادیبوں اور شاعروں کو حکومت کے کارناموں کی تعریفیں لکھنے کے لیے باقاعدہ وظیفے ملتے تھے۔
حکومت نے یہ طے کیا کہ گولڈ اسمتھ کو اپنا آلہ کار بنا کر مضامین اور نظمیں لکھوائی جائیں چنانچہ لارڈ سینڈوچ کی طرف سے ڈاکٹر اسکاٹ کو مامورکیا گیا کہ وہ گولڈ اسمتھ کو اس کام پر راغب کرے۔ ڈاکٹر اسکاٹ اس سے جا کر ملا لیکن ناکام واپس آیا اسکاٹ کے الفاظ ہیں ’’میں نے اسے برے حال میں دیکھا اور اپنا منصب اسے بتا کر یہ واضح کیا کہ اگر وہ حکومت کا کام کرے گا تو اسے نہایت معقول معاوضہ دیا جائے گا لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ اس نے مجھے یہ عجیب و غریب جواب دیا کہ میں حکومت کی طرف داری کیے بغیر اپنی ضرورت کے لائق کما سکتا ہوں مجھے حکومتی رشوت کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
سقراط نے ساری زندگی غربت میں گزاری۔ یونان کے ایک شہر میں جب بھگدڑ مچی تو تما م شہری اپنا اپنا قیمتی سامان لے کر بھاگے لیکن بپاس نے اپنا رتی بھر سامان نہ اٹھا یا اس کے دوستوں نے تعجب کا اظہار کیا تو جواب ملا کہ’’آپ کی حیرت بے محل ہے میرا تمام خزانہ (جو ہر ذاتی) میرے ساتھ ہے۔‘‘ اگر ہم اپنی ملکی تاریخ میں ڈھونڈنے بیٹھیں تو ہمیں گنتی کے چند ہی رہنما ملیں گے جنھوں نے رشوت، دھمکی، لالچ، حسن، مصائب کی پروانہ کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اور ساتھ ساتھ اپنے آپ، اپنے منصب، اپنے ملک، اپنے عوام سے بھی ایمانداری ووفاداری برتی، ورنہ آج ہم دور دور نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا۔
رشوت، کمیشن، حسن، کرپشن، کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ عہدوں، منصبوں، پرمٹوں،کمیشن پر سب کی رال اس طر ح بہہ رہی ہے جسے نلکے کو کھول دینے کے بعد پانی بہتا ہے ہر عہدے ہر ادارے میں کرپشن، بے ایمانی، لوٹ مار کی بے مثال اور انمول داستانیں ہر ٹیبل کے اوپر نیچے بکھر ی ہوئی پڑی ہیں۔ ہمارے ہاں جس کے پاس جتنا بڑ ا عہدہ ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان اور بدعنوان ہے۔
دنیا میں بے ایمانی سمیت تمام برائیوں و خرابیوں کی ایک حد ہے اگر آپ کو کہیں ہر حد پارہوتی ہوئی ملے تو سمجھ لیں کہ وہ پاکستان ہے۔ آپ کو ایسی بانجھ زمین اور قوم کہیں اور نہیں ملے گی جہاں نیک، شریف، ایماندار بااختیار لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہوں کہ انھیں شمارکرکے آپ کو شرم آجائے اور سرندامت سے اٹھ نہ سکے۔ آپ اپنی نظروں میں اتنے گرجائیں کہ پھرکبھی دوبارہ کھڑا نہ ہوسکیں۔
کوئی معاشرہ افراد کی اخلاقی اقدار کی وجہ سے اچھا برا بنتا ہے، جیسی کسی سماج یا معاشرے کی شکل و صورت ہوگی ویسے ہی اس کے خیالات، نظریے اور عقائد ہونگے جیسا رہن سہن ہوگا ویسی ہی سو چ ہوگی۔ ایک مرتبہ آئن اسٹائن نے کہا تھا ’’ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے‘‘ اس نے خود جواب دیا’’اگرکائنات حادثہ ہے تو ہم بھی حادثہ ہیں لیکن اگرکائنات کے کوئی معنی ہیں تو ہم میں بھی معنی ہیں۔‘‘
زندگی کا مقصد صرف لوٹ مارکرپشن یا دولت کا ذخیرہ کرلینا نہیں ہے انسان کی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہونا چاہیے۔ جب کہ ایمرسن نے کہا ہے کہ ’’کسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شماری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود نہ غلے کی افراط اور دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک کسی قسم کے انسان پیدا کرتا ہے۔‘‘ انسان تمام جانوروں میں واحد جانور ہے جو کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے کہ فرق کو سمجھتا ہے، جو معاشرہ اخلاق سے عاری ہوتا ہے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔
یاد رہے تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلاقی ناکامیاں تھیں، لالچ، خوف، دباؤ، یہ تین چیزیں اخلاقیات پر حملہ آور ہوکر اسے تباہ کردیتی ہے، جیت کے لیے نہیں بلکہ جیتنے کے لیے زندہ رہا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے صاحب اختیار صرف جیت کے لیے زندہ ہیں۔ ہمارے صاحب اختیاروں کی قبرکے کتبے پر لکھا ہونا چاہیے کہ ’’اس شخص کی قبر ہے جس سے برے آدمی محبت کرتے تھے اور نیک آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی۔‘‘